الحمد للہ.
اول:
پہلے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ عورت اپنے خاوند سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے، لیکن اس کیلیے شرط ہے کہ کوئی شرعی عذر بھی موجود ہو جو طلاق یا خلع کے مطالبہ کو جواز فراہم کرے؛ مثلاً: دونوں میں مزید نبھاؤ ممکن نہ ہو، اس بارے میں مزید جاننے کیلیے سوال نمبر: (118325) کا جواب ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
دوم:
اگر خلع لینے والی عورت امید سے ہے تو وضع حمل تک اس کیلیے نفقہ، رہائش کی ذمہ داری خاوند پر آتی ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خاوند اگر اپنی بیوی کو طلاق بائن دے تو وہ یا تو تین طلاقوں کی صورت میں ہو گی یا پھر خلع کی صورت میں یا فسخ نکاح کی صورت میں، [ہر تین صورت میں] اگر عورت حمل سے ہے تو اس کیلیے نفقہ اور رہائش کی سہولت [خاوند کے ذمے] ہے، اس پر اہل علم کا اجماع ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ مطلقہ عورتوں کو [دوران عدت] وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو ، جیسی جگہ تمہیں میسر ہو، اور انہیں تنگ کرنے کے لئے ایذا نہ دو ۔ اور اگر وہ حمل والی ہوں تو وضع حمل تک ان پر خرچ کرتے رہو۔ [الطلاق: 6]
اور فاطمہ بنت قیس کی کچھ احادیث میں یہ بھی ہے کہ: (تمہیں نفقہ نہیں ملے گا ، الا کہ تمہیں حمل ٹھہر چکا ہو) نیز اس لیے بھی کہ حمل اسی خاوند کی اولاد ہو گا، تو اس لیے خاوند پر ہی اس کے اخراجات لازمی ہوں گے، اور حمل کی صورت میں خاوند بچے پر خرچہ اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ حمل والی عورت پر خرچ کرے گا، تو اس لیے اس عورت کا خرچہ اٹھانا اس پر لازمی ہو گا" ختم شد
" المغنی" (8/186)
تو اس کے خاوند پر واجب ہے کہ اس کے اخراجات برداشت کرے اور اس کیلیے مناسب رہائش کا انتظام بھی کرے، یا اسے رہائش کا کرایہ دے یہاں تک کہ وضع حمل سے اس کی عدت مکمل ہو جائے۔
تین طلاقوں یا خلع کی وجہ سے مکمل طور پر جدائی پانے والی خاتون کا اپنے خاوند کے گھر میں رہنا اہل علم کے راجح موقف کے مطابق واجب نہیں ہے، تاہم عورت اپنے سابقہ خاوند کے گھر میں عدت گزار سکتی ہے، لیکن اس کیلیے شرط یہ ہےکہ مرد سابقہ بیوی کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے، نیز عورت کسی اور پر امن جگہ بھی عدت گزار سکتی ہے۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مکمل جدائی پانے والی عورت کہیں بھی پر امن جگہ پر عدت گزار سکتی ہے، اس پر یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے گھر میں ہی عدت گزارے؛ کیونکہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بائن دے دی اور ابو عمرو کہیں دور تھا، تو اس نے معمولی سی کوئی چیز فاطمہ کو بھیج دی، جس پر فاطمہ کو غصہ آ یا، تو[معمولی چیز لانے والی] خاتون نے اسے کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تو ابو عمرو کے ذمے کوئی چیز بنتی ہی نہیں ہے، اس پر فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور اپنا ماجرا سنایا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا: (تمہارے لیے ابو عمرو پر کوئی نفقہ اور رہائش نہیں ہے، اور آپ نے اسے حکم دیا کہ ام شریک کے پاس عدت گزار لو، پھر فرمایا: ام شریک کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے رہتے ہیں، تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو) متفق علیہ" ختم شد
"كشاف القناع " (5/434)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب خاوند نے بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دی ہے اور گھر میں مطلقہ خاتون کے علاوہ بھی کوئی اور ہے یعنی کہ طلاق دہندہ مرد اور مطلقہ عورت کی خلوت گھر میں نہ بنے تو پھر مطلقہ عورت اس گھر میں رہ سکتی ہے، تاہم وہ اپنے گھر بھی جا سکتی ہے، لیکن اگر گھر میں صرف طلاق دہندہ مرد اور مطلقہ عورت ہی ہیں تو پھر ایسی صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ کسی اور جگہ چلی جائے؛ کیونکہ تین طلاق کے بعد وہ اب مکمل طور پر جدا ہو چکی ہے ، وہ طلاق دہندہ کیلیے حلال نہیں رہی، اس لیے اس مرد کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مطلقہ خاتون کے ساتھ تنہائی اختیار کرے، مطلقہ عورت کو اپنے اہل خانہ کے پاس چلے جانا چاہیے" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب "
حمل کی صورت میں خلع لینے والی عورت کی عدت وضع حمل سے ختم ہو جائے گی، اس کی تفصیل پہلے سوال نمبر: (14569) کے جواب میں گزر چکی ہے، مزید استفادے کیلیے آپ اس کا مطالعہ بھی کریں۔
واللہ اعلم.