سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نماز اشراق کی رکعات

209657

تاریخ اشاعت : 19-03-2016

مشاہدات : 38344

سوال

سوال: نماز اشراق کی کتنی رکعات ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ نماز اشراق کم از کم دو رکعات اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہوتی ہے، اس بات کی کیا دلیل ہے؟ اور کیا دو ، دو رکعات کر کے ادا کی جائے گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز اشراق کی رکعات کے بارے میں کم از کم دو رکعات کا ذکر ملتا ہے، جیسے کہ مسلم (720) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ([تمام اعضاء پر  صدقہ لازم ہے]جس سے اشراق کی دو رکعات کفایت کر جائیں گی)

اور بخاری (1981) و مسلم: (721) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے میرے حبیب نے تین چیزوں کی تاکیدی نصیحت کی: ہر ماہ تین روزے رکھوں، اشراق کی دو رکعات ادا کروں، اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں)

تاہم زیادہ سے زیادہ اشراق کی نماز کیلئے رکعات کی کوئی نص موجود نہیں ہے، صرف اتنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  اشراق کی نماز چار رکعات ادا کیں، اور بسا اوقات آپ چار سے بھی زیادہ ادا کر لیا کرتے تھے، جیسے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات ادا کی ہیں۔

چنانچہ مسلم (719) میں معاذہ رحمہا اللہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی کتنی رکعات ادا کیا کرتے تھے؟" تو انہوں نے کہا: "چار رکعات پڑھتے تھے، اور مرضی کے مطابق اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے"

اسی طرح مسلم: (336) میں ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور فاطمہ نے ان کیلئے پردے کا اہتمام کیا، غسل کے بعد آپ ایک کپڑے میں لپٹ گئے اور پھر اشراق کی آٹھ رکعات ادا کیں"

اسی طرح " الموسوعة الفقهية " (27/225) میں ہے کہ:
"نماز اشراق کو مستحب کہنے والے علمائے کرام میں اشراق کی کم از کم رکعات آٹھ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ([تمام اعضاء پر صدقہ لازم ہے] جس سےاشراق کی دو رکعات کفایت کر جائیں گی)لہذا اس روایت کی وجہ سے نماز اشراق کیلئے کم از کم  رکعات دو ہیں۔

اہل علم کا زیادہ سے زیادہ رکعات کے بارے میں اختلاف ہے:
چنانچہ مالکی، حنبلی-یہی حنبلی مذہب بھی ہے- فقہائے کرام کے ہاں زیادہ سے زیادہ اشراق کی نماز کیلئے آٹھ رکعات ہیں؛ دلیل ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن ان کے گھر تشریف لائے اور آٹھ رکعات ادا کیں، اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : میں نے کامل رکوع و سجود کیساتھ کبھی اتنی مختصر نماز نہیں دیکھی تھی"

جبکہ حنفی ، شافعی - شافعی  سے مرجوح [وجہ]قول کے مطابق- اور احمد -ایک روایت کے مطابق- زیادہ سے زیادہ اشراق کی نماز کیلئے بارہ رکعات ہیں؛ اس کی دلیل ترمذی اور نسائی میں ضعیف سند کیساتھ  نقل ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اشراق کی بارہ رکعات ادا کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک محل تیار فرما دیتا ہے) انتہی مختصرا

ان تمام اقوال میں راجح یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمازِ اشراق کی رکعات کیلئے کوئی حد بندی نہیں ہے، چنانچہ جتنی بھی رکعات دو ، دو کر کے ادا کریں جائز ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اشراق کی نماز کم از کم دو رکعات ہیں، اور [زیادہ ]کیلئے کوئی حد نہیں ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو، چار اور فتح مکہ کے دن آٹھ رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لیے اشراق کی رکعات کے بارے میں وسعت موجود ہے؛ لہذا اگر کئی شخص آٹھ ، دس، بارہ، یا اس سے کم و بیش بھی پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (رات اور دن کی نماز دو، دو رکعات ہیں) لہذا سنت یہی ہے کہ انسان دو ، دو رکعات  کر کے ادا کرے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے" انتہی مختصراً
" مجموع فتاوى ابن باز " (11/389)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمازِ اشراق کی رکعات کیلئے کوئی حد بندی نہیں ہے؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی نماز کیلئے چار رکعات ادا کرتے ، اور جتنی اللہ تعالی توفیق دیتا ان رکعات میں اضافہ بھی کرتے" اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے، اب اس روایت میں زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی، چنانچہ اگر کوئی شخص مثال کے طور پر سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک مسلسل نوافل ہی ادا کرتے رہے تو یہ سب نماز اشراق ہی شمار ہوگی۔۔۔" انتہی
"الشرح الممتع" (4/85)

نوٹ: نفل نماز دو ، دو رکعت ادا کی جاتی ہے، چاہے نوافل دن کے وقت ادا کرنے ہوں یا رات کے وقت، اس بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (45268) میں ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب