جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

مانع حمل گولیاں اور اندام نہانی میں کوائل [کڑا ، چھلہ] رکھنا

21169

تاریخ اشاعت : 27-04-2015

مشاہدات : 9521

سوال

سوال: وقتی طور پر مانع حمل کا باعث بننے والے کڑے کا رحم میں رکھنے کا کیا حکم ہے؟ یہ بات واضح رہے کہ یہ بیضہ کو بار آور ہونے سے نہیں روکتا، بلکہ نطفے کو رحم کے ساتھ چمٹنے نہیں دیتا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کو چاہیے کہ  افزائش نسل کیلئے جتنا ہو سکے کوشش کریں؛ کیونکہ  اسی بات کی رہنمائی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ملتی ہے: (تم  محبت کرنیوالی اور زیادہ بچے جننے والی خاتون سے شادی کرو، بیشک میں تمہاری وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کرونگا)؛ اور ویسے بھی جتنی زیادہ افزائشِ نسل ہوگی اس امت کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور جس امت کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی  اتنی ہی اس کی شان زیادہ  ہوگی،  اسی لئے اللہ تعالی نے بنی اسرائیل  کو احسان جتلاتے ہوئے فرمایا: وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا اور ہم نے تمہاری تعداد کو سب سے زیادہ بنایا[الإسراء : 6]، اور اسی طرح شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ اور اس وقت کو یاد کرو، جب تمہاری تعداد بہت کم تھی، تو تمہیں زیادہ کر دیا[الأعراف : 86] ،  اس بات کا کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا کہ کسی امت کی کثرت  اس کی عزت و قوت  کا باعث ہے، بالکل ان لوگوں کےاس غلط تصور کے الٹ ،جو کہتے ہیں  کہ کسی امت کی کثرت  ان کےفقر و فاقہ کا باعث ہے۔

بلاشبہ  جب امت کی تعداد زیادہ ہوگی، اوران کا اللہ تعالی پر اعتماد ، اور اس کے وعدے پر یقین ہو گا، جوکہ اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا زمین پر جو کوئی  بھی رینگے والا  جانور  ہے، اس کا رزق اللہ تعالی کے ہی ذمہ ہے[هود : 6]۔تو اللہ ان کے معاملات آسان کر دے گا اور اپنے فضل سے اور بھی دے گا۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق سوال کا جواب یہ ہوگا کہ:

کسی خاتون کیلئے مانع حمل گولیاں  استعمال کرنے کی اجازت دو شرائط کی موجودگی میں  دی جا سکتی ہے:

1- کہ عورت کو حمل سے بچنے کی ضرورت ہو، مثلا: بیمار ہونے کی وجہ سے ہر سال  حمل برداشت نہ کر سکتی ہو، یا اس کا جسم انتہائی کمزور ہو، یا  ہر سال  حاملہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والےکسی دوسرے ضرر کا اندیشہ ہو۔کوئی اور مانع موجود ہو جس کی وجہ سے عورت کو نقصان کا خدشہ رہے۔

2- خاوند مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کی اجازت دے؛ کیونکہ افزائش نسل  خاوند کا حق ہے، اور اسی طرح گولیاں استعمال کرنے سے قبل طبی ماہرین سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے، کہ گولیوں کا استعمال نقصان دہ ہوگا یا نہیں۔

چنانچہ اگر مذکورہ بالا دونوں شرائط پائی جائیں، تو ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن   ان گولیوں کااثر دائمی نہیں ہونا چاہیے، یعنی:  ایسی گولیاں استعمال نہ کی جائیں جن سے ہمیشہ کیلئے  حمل کا امکان ختم ہو جائے، یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کرنے سے نسل انسانی کا خاتمہ لازم آئے گا" انتہی
" فتاوى المرأة المسلمة " ( 2 / 657 ، 658 )

مانع حمل  گولیوں کے نقصانات کے بارے میں شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجھے طبی ماہرین کی متعدد  کمیٹیوں کی طرف سے یہ بات سننے کو ملی ہے کہ مانع حمل گولیاں نقصان دہ ہوتی ہیں، اور اگر ہمیں اس بات کا ادراک  طبی ماہرین کی جانب سے نہ بھی ہو تو بھی ہم اسے ذاتی طور پر بھی جانتے ہیں؛  کیونکہ  اللہ کی طرف سے عورتوں میں پیدا کردہ کسی بھی طبعی اور فطری چیز کو روکنا  یقینی طور پر نقصان دہ ہوگا، اللہ تعالی کی ذات  حکمت والی ہے، اس نے  رحم سے نکلنے والے اس خون کو ایسے ہی نہیں بنا دیا بلکہ  اس میں حکمت ہے، اور اگر ہم اسے گولیوں کے ذریعے روک دیں تو  اس کا لازمی طور پر نقصان ہوگا۔

لیکن ایک اور بات مجھے پہنچی ہے جو ہمارے تصور سے بھی زیادہ سنگین ہے، کہ اس کی وجہ سے رحم  برباد ہو جاتا ہے، اسی طرح اعصابی امراض جنم لیتی  ہیں، جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کام سے بچنا ضروری ہے" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " ( سوال نمبر: 1147 )

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
" طبی ماہرین کے مشورے  اور شعبہ میڈیکل کی رائے پر موجودہ یا مستقبل کے خدشات  کے باعث رحم کو حمل  سےروکنے کیلئے شکم مادر سے نکال دینے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
اگر واقعی اشد ضرورت ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بصورتِ دیگر رحم نکالنا  جائز نہیں ہے؛ کیونکہ  شریعت افزائشِ نسل کی  حوصلہ افزائی کرتی ہے، اورکثرت امت   کی ترغیب بھی دلاتی ہے، تاہم اگر یہ کام کسی ضرورت کی  بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،  ایسے ہی شرعی مصلحت  کیلئے وقتی طور پر منع حمل کے اسباب اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے"انتہی
( 9 / 434 )

یہ تو ہے مانع حمل گولیوں کے بارے میں ، اور یہی بات مانع حمل کوائل [کڑا یا چھلہ] کے بارے میں بھی کہی جائے گی، اور طبی ماہرین کے ہاں   اس مانع حمل  کا نقصان دہ ہونا یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہے، بالخصوص اگر اسے مسلسل استعمال کیا جائے  تو  نقصان زیادہ ہوتا ہے، اور یہ بات مشہور ہے کہ  کڑا یا چھلہ رکھنے کے بعد  حیض کے خون میں واضح اضافہ ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات  ماہواری ایک ماہ میں دو بار بھی آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے عورت کے جسم میں آئرن کی کمی  واقع ہو تی ہے، حالانکہ آئرن  انسانی جسم کیلئے ضروری و  اہم ترین عناصر میں شامل ہے، اور بسا اوقات ایسی خواتین کو جنہوں نے کڑا یا چھلہ رحم میں رکھوایا ہوا ہے انہیں خون کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ  کڑے کی وجہ سے حیض کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، اور بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے جسم میں آئرن کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

اسی طرح کچھ  خواتین کو  کوائل رکھنے کی صورت میں رحم میں سوزش کی  شکایت بھی ہوئی ہے۔

ان ساری باتوں کے بعد  یہ بات بھی ہے کہ چھلہ رکھنے کے بعد بھی کچھ خواتین کو  حمل ٹھہر جاتا ہے، جیسے کہ متعدد خواتین کیساتھ ایسا ہوا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں عافیت سے نوازے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد