سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا کسی فقہی مذہب کو اپنانا لازمی ہے؟

سوال

کیا ہر مسلمان پر کسی فقہی مذہب (مالکی، حنفی، حنبلی یا شافعی) کو اپنانا لازمی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو سب سے افضل مذہب کون سا ہے؟ اور کیا یہ صحیح ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک کی  اتباع مسلمان پر واجب نہیں ہے، ادراک ، فہم، اور دلائل کے ذریعے احکامات کشید کرنے کیلیے لوگوں کی ذہنی سطح مختلف ہوتی ہے، چنانچہ کچھ لوگوں کیلیے تقلید جائز ہوتی ہے اور بسا اوقات واجب ہوتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں کیلیے دلیل سے مسئلہ اخذ کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی اختیار نہیں ہوتا، چنانچہ دائمی فتوی کمیٹی  کے فتاوی میں اس مسئلے کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے، ہم اسے بعینہ یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں:

سوال:

چار مذاہب کی تقلید کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز تمام حالات میں اوقات میں انہی کے موقف کو ماننے  کا کیا حکم ہے؟

تو اس پر دائمی فتوی کمیٹی نے جواب دیا:
"تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں اللہ کے رسول ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر، اس کے بعد:
اول: چار فقہی مذاہب چار ائمہ کرام امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کی جانب منسوب ہیں، چنانچہ حنفی مذہب امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے، اسی طرح دیگر مذاہب بھی۔

دوم: ان ائمہ کرام نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق دین کی سمجھ اور فقہ کتاب و سنت سے حاصل کی ہے، اور مجتہد اگر صحیح نتیجہ اخذ کرے تو اس کیلیے دہرا اجر ہوتا ہے ایک اجتہاد کا اور دوسرا درست نتیجے کا، لیکن اگر غلطی ہو جائے تو اسے اجتہاد کرنے پر ثواب تو ملے گا لیکن غلطی ہونے پر انہیں معذور سمجھا جائے گا۔

سوم: کتاب و سنت سے مسئلہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا شخص کتاب و سنت سے ہی مسئلہ اخذ کرے گا جیسے کہ شروع سے علمائے کرام کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرتے آ رہے ہیں، لہذا جس مسئلے میں اس کی [کتاب و سنت پر مبنی]تحقیق  ہو تو وہ اپنی تحقیق چھوڑ کر کسی کی تقلید نہیں کر سکتا، بلکہ وہی موقف اپنائے گا جسے وہ [کتاب و سنت کے دلائل کی بنا پر]حق سمجھتا ہے، تاہم جن مسائل کی تحقیق کیلیے اس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ ضرورت پڑنے پر کسی کی تقلید کر سکتا ہے۔

چہارم: جس شخص کے پاس مسائل استنباط کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ شخص کسی ایسے عالم کی تقلید کر سکتا ہے جس پر اسے مکمل بھروسا ہو، لیکن اگر اسے دلی اطمینان حاصل نہ ہو تو پھر اطمینان حاصل ہونے تک اہل علم سے رجوع کرتا رہے۔

پنجم: سابقہ امور سے یہ واضح ہو گیا کہ چار مذاہب  کے اقوال کی ہر وقت اور ہر حالت میں آپ پیروی  نہیں کریں گے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ان سے غلطی ہو جائے، چنانچہ ان کے صرف انہی اقوال کی پیروی کی جائے گی جس پر دلیل موجود ہو"

دائمی فتوی کمیٹی: (5/28)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتوی نمبر: (3323) میں ہے کہ:

"اگر کوئی شخص کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو  اور مسائل اخذ کرنے کیلیے سلف صالحین اور علمائے اسلام سے ورثے میں ملنے والی فقہی مباحث سے بھی مدد لے تو وہ ایسا کر سکتا ہے؛ تا کہ وہ خود بھی مستفید ہو اور اختلافات  کے فیصلے بھی کرے اور جو کوئی اس سے مسئلہ پوچھے تو سوال کا جواب بھی دے۔
لیکن اگر کوئی شخص اتنی صلاحیت کا حامل نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قابل اعتماد اہل علم سے پوچھ لے، ان کی کتابوں سے مسئلے کا حل تلاش کرے اور اس پر عمل پیرا ہو، تاہم ہمیشہ چار فقہی مذاہب میں سے کسی ایک پر اپنے آپ کو محدود نہ رکھے، لوگوں نے چار فقہی مذاہب کی جانب رجوع کرنے کی عادت اس لیے ڈال لی کہ یہ چار فقہی مذاہب دیگر مذاہب سے زیادہ مشہور ہو گئے اور ان  کی کتب منظر عام پر آئیں، ان کتابوں تک لوگوں کی دسترس ہوئی اور ان کا موقف جاننا آسان ہو گیا۔

اگر کوئی شخص تشنگان علم پر تقلید واجب قرار دیتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور جمود کا شکار ہے، وہ حقیقت میں تشنگانِ علم کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے، ایسا شخص تشنگانِ علم کیلیے وسیع میدان کو محدود کر رہا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص صرف چار مذاہب کی تقلید کو ہی روا سمجھتا ہے تو وہ بھی غلطی پر ہے، اس نے بھی شرعی وسعت کو بغیر کسی دلیل کے محدود کر دیا ہے؛ کیونکہ ایک عام آدمی کے سامنے ائمہ اربعہ اور دیگر فقہائے عظام مثلاً: لیث بن سعد، اوزاعی  اور دیگر اہل علم سب یکساں ہیں"
فتاوی لجنہ دائمہ: (5/41)

اسی طرح فتوی کمیٹی کے فتوی نمبر: (1591) میں ہے کہ:
"چاروں فقہائے کرام میں سے کسی نے بھی اپنے فقہی مذہب کا پرچار نہیں کیا اور نہ ہی اس کیلیے تعصب دکھایا ہے نہ ہی انہوں نے دوسروں کو اپنے یا کسی اور معین فقہی مذہب  پر چلنے کیلیے مجبور کیا ؛ بلکہ ائمہ کرام تو کتاب و سنت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے، شرعی نصوص کی وضاحت بیان کرتے، شرعی قواعد اور اصول واضح کرتے اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں نتائج اخذ کر کے پوچھے گئے سوالات پر فتوی دیتے؛ وہ اپنے کسی شاگرد یا سائل پر اپنی رائے تھوپتے نہیں تھے بلکہ اگر کوئی اپنا موقف کسی پر زبردستی ٹھونستا تو اسے عیب اور برا سمجھتے تھے، ائمہ کرام یہ حکم دیا کرتے تھے اگر ان کا موقف صحیح حدیث سے متصادم ہو تو ان کے موقف کو دیوار پر دے مارنا، ائمہ کرام کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ: "جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو وہی میرا موقف ہے" اللہ تعالی سب ائمہ کرام پر رحم فرمائے۔
کسی پر بھی ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کو اپنانا واجب نہیں ہے، بلکہ مسلمان کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو حق کی جستجو میں لگا رہے ، تلاشِ حق کیلیے اللہ تعالی سے مدد مانگے اور مسلمان اہل علم کی جانب سے وراثت میں ملنے والے علمی اور فقہی خزانے سے رہنمائی لے کہ انہوں نے بعد میں آنے والوں کیلیے شرعی نصوص کو سمجھنا اور لاگو کرنا آسان کر دیا۔
اور اگر کوئی شخص نصوص وغیرہ سے براہِ راست احکام کشید نہ کر سکتا ہو  تو وہ اپنے ضروری مسائل کے بارے میں معتمد اہل علم سے استفسار کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔[النحل: 43]
چنانچہ استفسار کرتے ہوئے یہ اطمینان کر لے کہ جن سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ علم و فضل، تقوی اور پرہیز گاری میں مشہور ہیں"
دائمی فتوی کمیٹی: (5/56)

ایسا ممکن ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب مسلمانوں میں زیادہ پھیلا ہو، اور عین ممکن ہے کہ اس کا سبب یہ ہو کہ عثمانی خلفائے کرام نے اس مذہب کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا  اور پھر چھ صدیاں اسلامی ممالک پر انہوں نے حکومت کی۔

اب اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فقہی مذہب سب سے صحیح ترین فقہی مذہب ہے، لہذا اس فقہی مسلک میں کے تمام مسائل صحیح ہیں، بلکہ حنفی فقہی مذہب بھی دیگر فقہی مذاہب کی طرح ہے چنانچہ اس میں بھی صحیح اور غلط مسائل موجود ہیں، تاہم ایک مومن کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ سچ کی جستجو میں لگا رہے چاہے سچ کا قائل کوئی بھی ہو۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب