سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اذان كى مشروعيت

21517

تاریخ اشاعت : 28-06-2006

مشاہدات : 9761

سوال

اذان كى مشروعيت كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اذان كا لغوى معنى اعلام كے ہيں.

اورشرعيت ميں اذان نماز كے وقت كا معلوم كرانے كو كہتے ہيں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 72 ).

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك صحابى كى خواب كو مد نظر ركھتے ہوئے مدينہ ميں اذان مشروع ہوئى.

عبد اللہ بن زيد بن عبد ربہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ناقوس پر متفق ہو گئے حالانكہ عيسائيوں كى بنا پر اسے ناپسند كرتے تھے، ميں رات سويا ہوا تھا كہ خواب ميں ايك شخص ميرے پاس سے گزرا، اس پر دو سبز كپڑے تھے اور اس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا، راوى كہتے ہيں: ميں نے اسے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كرو گے ؟

اس نے كہا تم اس كا كيا كروگے ؟

راوى كہتے ہيں: ميں نے كہا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلائيں گے، وہ كہنے لگا: كيا ميں تجھے اس سے بہتر چيز نہ بتاؤں ؟

ميں نے كہا: كيوں نہيں، وہ كہنے لگا: تم يہ كلمات كہنا كرو: اللہ اكبر .... ( اذان كے آخر تك )...

راوى كہتے ہيں: جب صبح ہوئى تو ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور اپنى خواب ميں جو كچھ ديكھا تھا وہ بيان كر ديا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے، اٹھو بلال كو يہ كلمات سكھاؤ كيونكہ وہ تجھ سے زيادہ بلند آواز والا ہے.

راوى كہتے ہيں: ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ اٹھا اور اسے يہ كلمات سكھانے لگا اور انہوں نے ان كلمات كے ساتھ اذان كہى، جب عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے گھر يہ اذان سنى تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے آئے اور كہنے لگے:

اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كى خواب ديكھى تھى.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: الحمد للہ "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 189 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 499 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 706 ).

اس حديث كو ابن خزيمہ نے صحيح ابن خزيمہ ( 1 / 189 ) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 4 / 572 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 145 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اذان فرض كفايہ ہے، چنانچہ ہر علاقے اور شہر كے لوگوں ميں كوئى شخص اذان كہے تا كہ لوگوں كو نماز كے وقت كا علم ہو جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

اذان شہر اور علاقے ميں فرض كفايہ ہے، اور اسى طرح اقامت بھى، جب نماز ادا كرنے كا ارادہ ہو تو نماز شروع كرنے سے قبل اقامت كہے، اور اگر كوئى شخص بغير اذان اور اقامت كے بھول كر يا جھالت وغيرہ كى وجہ سے نماز شروع كر دے تو اس كى نماز صحيح ہے، اور اسى طرح اگر فجر كى اذان ميں " الصلاۃ خير من النوم " كے كلمات رہ جائيں تو نماز صحيح ہے، چاہے وقت باقى بھى ہو.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ والبحوث العلميۃ والافتاء ( 6/ 54 ).

اذان كى فضيلت ميں بہت سى احاديث آئى ہيں، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مؤذن كى آواز جن و انس اور جو چيز بھى سنتى ہے وہ روز قيامت اس كى گواہى دے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 609 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب