الحمد للہ.
عورت کے لیے اپنے خاوند کے اس کے نام سے پکارنے میں کوئي حرج نہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت پر کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، لیکن اس مسئلہ میں لوگوں کی عادات اورعرف معتبر ہے ۔
کسی ملک میں لوگوں کے اندر یہ معروف ہے کہ بیوی خاوند کومثلا کنیت سے پکارتی ہے ، اوران کے خیال میں خاوند کانام لے کر پکارنا بے ادبی ہے ، یا پھر خاوند یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے اس کانام لے کر پکارا جائے ، توعورت کواس کا خیال رکھنا چاہیے ۔
اس لیے کہ ایسا کرنے میں خاوند سے حسن معاشرت ہے اوراللہ تعالی نے بھی حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ، تویہ حسن معاشرت نہیں کہ اسے اس نام سے مخاطب کیا جائے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ، یا پھر جسے لوگ نقص شمار کرتے ہوں ۔
خاوند اوربیوی کےلیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کواس نام سے پکاریں جواس کے نزدیک سب سے محبوب اورپیارا ہو ، اس لیے کہ اس میں ان دونوں کے مابین محبت و الفت و مودت پیدا ہوگي اوراس میں زيادتی بھی ہوگی۔
مناوی رحمہ اللہ تعالی نے فیض القدیرمیں صحبت کے آداب بیان کرتےہوئے کہا ہے کہ :
صحبت کے آداب میں راز افشاں نہ کرنا بلکہ اسے چھپانا ، عیب کی پردہ پوشی کرنا ، لوگوں کی وہ مذمت والی باتیں اسے پہنچانے سے گریز کرنا جواسے اچھی نہیں لگتیں ، بلکہ اسے لوگوں کی اس کے بارہ میں اچھی باتیں پہنچائي جائيں جوکہ اس کی تعریف کے بارہ میں ہوں ۔
بات چیت میں اچھا رویہ اختیار کرنا اوراس کی بات کوسننا ، حقوق میں اس کا شکریہ ادا کرنا ، اس کی غیر موجودگی میں اس کے خلاف باتوں کی نفی کرنا اوراس کا دفاع کرنا ، اورضرورت کے وقت بغیر طلب کیے اس کا ساتھ دینا ، اسے نرمی اورتعریض کے ساتھ وعظ ونصیحت کرنا ، - اگر اسے اس کی ضرورت ہوتو – اس کی غلطی اورکوتاہی سے صرف نظر کرنا ، اس پر عیب جوئي نہ کرنا ، اس کی زندگي اورموت کے بعد بھی خلوت میں اس کے لیے دعا کرنا ۔
اس کی خوشی کے وقت فرحت کا اظہار کرنا ، اوراگراسے کوئي نقصان ہوتو اس میں غم کا اظہار کرنا ، جب وہ آئے توسلام کرنے میں ابتدا کرنا ، مجلس میں اس کے لیے جگہ بنانا ، اس کے لیے اپنی جگہ سے نکلنا ، اوراس کے کھڑے ہونے کی صورت میں اس کے پیچھے جانا ، جب وہ کلام کررہا ہوتو خاموشی اختیار کرنا ، اجمالی طور پر یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح معاملہ کرنا جس طرح وہ پسند کرتا ہو ۔ ا ھـ ، اختصار کے ساتھ ذکر کیا گيا ہے ۔
واللہ اعلم .