ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

مسجد كى صفائى كرنے كى فضيلت

21538

تاریخ اشاعت : 09-06-2006

مشاہدات : 9614

سوال

مسجد كى صفائى اور ترتيب اور امام كا خيال اوراہتمام كرنے كى كيا فضيلت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسجد كى صفائى كرنا اور اس ميں موجود قالين وغيرہ دوسرى اشياء كى ترتيب قابل تعريف اور مرغوب چيز ہے، اور اسے سرانجام دينے والے كو اللہ تعالى كے ہاں اس عمل صالح كا اجروثواب بھى حاصل ہو گا.

اللہ سبحانہ وتعالى نے مساجد كى تعظيم كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

ان گھروں ميں جن كے بلند كرنے اور جن ميں اپنے نام كى ياد كا اللہ تعالى نے حكم ديا ہے, وہاں صبح و شام اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتے ہيں ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريد و فروخت اللہ كے ذكر اور نماز كے قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور بہت سى آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائينگى النور ( 36 - 37 ).

سيوطى رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

اس آيت ميں مساجد كى تعظيم اور مساجد كو لغو اور گندگى سے پاك صاف ركھنے كا حكم ہے. اھـ

ماخوذ از: تفسير القاسمى ( 12 / 214 ).

اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث بھى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك سياہ رنگ كا مرد يا عورت مسجد كى صفائى كيا كرتى تھى، اور وہ مرگئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق ديافت كيا تو صحابہ نے عرض كيا وہ فوت ہو گئى ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم نے اس كے متعلق مجھے كيوں نہيں بتايا ؟ مجھے اس كى قبر بتاؤ چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى قبر پر آئے اور نماز جنازہ ادا كى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 458 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 956 ).

يقم كا معنى صفائى كرنا ہے.

اور ابو داود، ترمذى، ابن ماجۃ رحمہم اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے محلوں اور قبائل ميں مسجد بنانے اور اسے پاك صاف ركھنے اور خوشبو لگانے كا حكم ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 455 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 594 ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 759 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 487 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الدور كا معنى قبيلہ اور محلے ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد ميں تھوكنا گناہ شمار كيا اور بتايا ہے كہ اس كا كفارہ اسے دفن كرنا ہے.

صحيحين ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسجد ميں تھوكنا گناہ ہے اور اس كفارہ يہ ہے كہ اسے دفن كر ديا جائے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 415 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 552 ).

اور امام نسائى اور ابن ماجۃ رحمہما اللہ نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد ميں قبل والى طرف كھنكھار ( بلغم ) ديكھا تو غصہ ميں آ گئے حتى كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا چہرہ سرخ ہو گيا، چنانچہ ايك انصارى عورت آئى اور آكر اسے كھرچ ديا اور اس جگہ پر خوشبو مل دى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ كتنا ہى اچھا ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 728 ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 762 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى اور ابن ماجۃ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے كھرچ ديا، جيسا كہ صحيحين كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبلہ كى طرف ديوار پر كھنكھار يا تھوك يا بلغم ديكھى تو اسے كھرچ ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 407 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 549 ).

اور اس كى فضيلت ميں ضعيف احاديث بيان كى جاتى ہيں، ذيل ميں ہم ان حديثوں كو ضعيف ہونے كى بنا پر بيان كرتے ہيں، تا كہ لوگوں كو اس كے ضعيف ہونے كا علم ہو سكے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت شدہ حديث ہى كافى ہيں:

ابو داود اور ترمذى ميں حديث ہے كہ:

" مجھ پر ميرى امت كا اجروثواب پيش كيا گيا، حتى كہ مسجد سے گندگى نكالنے والے كا بھى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 461 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2916 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ترمذى ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.

اور ابن ماجۃ رحمہ اللہ تعالى نے حديث بيان كى ہے كہ:

" جو شخص مسجد سے گندگى اور اذيت والى چيز نكالتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے جنت ميں گھر بنا ديا ہے "

سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 757 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابن ماجۃ ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.

اور امام كى قدر اور اس كا خيال ركھنے كے مسئلہ ميں عرض يہ ہے كہ:

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم كے مقدمہ ميں كہا ہے:

" عظيم مرتبہ اور قدر والے شخص كو اس كے درجہ سے كم قدر نہيں كى جائيگى، اور نہ ہى كم درجہ كے شخص كو اس كے قدر و منزلت سے بڑھايا جائيگا، بلكہ ہر حق والے كو اس كا حق اور اس كا مقام و مرتبہ ديا جائيگا.

انہوں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث بيان كى ہے، وہ بيان كرتى ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ ہم لوگوں كو ان كے مقام و مرتبہ پر ہى ركھيں " اھـ

چنانچہ اگر امام عالم فاضل شخص ہو اور تو اس كے ساتھ محبت كرنا، اور اس كا خيال ركھنا صالحين اور نيك لوگوں كے ساتھ محبت اوران كى عزت و توقير كرنے كے عموم ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ نيك اور صالح عمل ہے.

ليكن يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا ہو گا كہ معاملہ اس حالت تك نہ پہنچ جائے كہ اس شخص يا امام يا اس كى ذات سے تبرك حاصل كيا جانے لگے يا اس كو ہاتھ لگا كر تبرك حاصل كرنے لگيں، جيسا كہ بعض لوگ كرتے بھى ہيں، كيونكہ پہلے مسلمانوں كا اپنے آئمہ اور علماء كے ساتھ يہ طريقہ نہيں تھا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب