سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا موجودہ نماز ادا كرے يا فوت شدہ ؟

21616

تاریخ اشاعت : 02-05-2008

مشاہدات : 8420

سوال

اگر كسى عذر مثلا نيند كى بنا پر كوئى نماز رہ جائے، تو كيا پہلے ہم فوت شدہ نماز ادا كرينگے يا كہ موجودہ نماز، جبكہ موجودہ نماز كى جماعت ہو چكى ہو، يعنى جماعت كے بعد ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كو بروقت نماز ادا كرنے كے پابندى كرنى چاہيے، اور پھر اللہ تعالى نے مومنوں كى مدح اور تعريف كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور وہ لوگ جو اپنى نمازوں كى حفاظت كرتے ہيں المعارج ( 34 ).

چنانچہ اگر كسى انسان كو كوئى عذر پيش آ جائے اور نماز رہ جائے تو وہ اس نماز كى قضاء كرے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى نماز بھول جائے يا نماز سے سويا رہے تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے نماز ادا كرے "

صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاۃ حديث نمبر ( 1103 ).

اس ليے اگر آپ كى كوئى نماز رہ جائے تو " پہلے فوت شدہ نماز ادا كرو اور پھر موجودہ نماز، اور اس ميں تاخير كرنا جائز نہيں، لوگوں ميں يہ عام ہو چكا ہے كہ اگر كسى كى كوئى نماز رہ جائے تو وہ اسے دوسرے دن اسى نماز كے ساتھ ادا كرتا ہے، مثلا اگر كسى شخص نے نماز فجر ادا نہ كى تو وہ اسے دوسرے دن كى نماز فجر كے ساتھ ادا كرتا ہے، يہ غلط ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور قول اور فعل كے خلاف ہے.

قولى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى نماز سے سويا رہے يا اسے بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "

اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ: جب دوسرے دن اس كا وقت آئے تو پھر نماز ادا كرے، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ فرمايا كہ:

" جب اسے ياد آئے تو وہ اسے ادا كر لے "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل كى دليل:

جب جنگ خندق كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نمازيں رہ گئيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موجودہ نماز كے قبل ادا كيں "

يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ انسان پہلے فوت شدہ نماز ادا كرے اور پھر موجودہ نماز.

ليكن اگر اس نے بھول كر پہلے موجودہ نماز ادا كر لى يا اسے علم ہى نہ تھا تو اس كى نماز صحيح ہے، كيونكہ اس كے ليے عذر ہے "

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / 222 ).

خندق كے موقع پر نماز والى حديث امام نسائى رحمہ اللہ تعالى نے عبد الرحمن بن ابى سعيد سے بيان كى ہے وہ اپنے والد ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

" جنگ خندق والے روز ہميں مشركوں نے نماز كى ادائيگى نہ كرنے دى اور مشغول ركھا حتى كہ سورج غروب ہو گيا.. . چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ ظہر كى نماز كى اقامت كہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر كى نماز پڑھائى، پھر اس كے بعد عصر كى نماز كى اقامت كہى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عصر كى نماز پڑھائى، اور پھر مغرب كى اذان كہى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مغرب كى نماز وقت ميں پڑھائى جس طرح پہلے پڑھايا كرتے تھے "

سنن نسائى كتاب الاذان حديث نمبر ( 655 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 638 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل اور فعل اس بات كى دليل ہے كہ فوت شدہ نمازوں كى ادائيگى ميں ترتيب واجب ہے.

ليكن اگر صرف موجودہ نماز كى ادائيگى كے ليے وقت باقى ہو تو اس صورت ميں پہلے موجودہ نماز ادا كى جائيگى تا كہ اس كا بھى وقت نہ نكل جائے اور اس كے بعد دوسرى نمازيں ادا كى جائينگى.

واللہ اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد