الحمد للہ.
حج چونکہ شعارِ توحید ہے اس لیے جس وقت سے انسان حج کی ابتدا کرتا ہے اسی لمحے سے نعرۂ توحید بلند کرنا شروع کر دیتا ہے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے [نعرۂ] توحید کے ساتھ تلبیہ کہنا شروع کیا: (لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ... لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ... إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ) "مسلم
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کہنے کے انداز کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لَبَّيْكَ عُمْرَةً لَا رِيَاءَ فِيْهَا وَلَا سُمْعَةَ "[یا اللہ! میں عمرے کیلیے حاضر ہوں جس میں کوئی ریا کاری یا شہرت کا شائبہ نہیں ہے])
اس طرح سے تلبیہ میں حاجی کے دل کی عقیدہ توحید اور اخلاص پر تربیت کی گئی ہے۔
کیونکہ ایک حاجی اپنا حج عقیدہ توحید سے شروع کرتا ہے اور عقیدہ توحید پر مشتمل ہی تلبیہ کہتا ہے ، بلکہ حج کے دیگر اعمال کرتے ہوئے چلتے پھرتے بھی عقیدہ توحید گنگناتا ہے۔
تلبیہ میں متعدد مفاہیم جاگزین ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
1- " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ" کا مطلب ہے کہ میں اللہ تعالی کے سامنے بار بار حاضر ہوں، "لَبَّيْكَ" کا لفظ تکرار کے ساتھ یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ اللہ کے سامنے حاضری ہمیشہ اور مسلسل ہوگی۔
2- " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ" یعنی میں اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں آنے کے بعد بھی مزید اطاعت گزاری کیلیے تیار ہوں۔
3- تلبیہ کا لفظ عربی زبان میں " لَبَّ بِالْمَكَانِ" سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کسی جگہ پر ٹھہرے تو وہیں کا ہو جائے، تو اس اعتبار سے معنی یہ ہو گا کہ : اے اللہ! میری تیری اطاعت پر قائم ہوں اور اسی پر دائم رہوں گا، چنانچہ تلبیہ میں اللہ کی بندگی پر قیام اور پھر اسی پر گامزن رہنے کا عزم ہے۔
4- تلبیہ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ : یا اللہ! میں تجھ سے بڑھ چڑھ کر محبت کرتا ہوں، یہ معنی عربی زبان کے مقولے : "امرأة لَبًة " سے ماخوذ ہے ، یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب عورت اپنے بچوں سے خوب محبت کرے، اس معنی کے مطابق کسی کو" لَبَّيْكَ" اسی وقت کہا جائے گا جب محبت کے ساتھ تعظیم بھی شامل ہو۔
5- تلبیہ کے اخلاص کے معانی بھی شامل ہیں، اس معنی کے مطابق " لَبَّيْكَ" کا لفظ : " لُبّ الشيء" سے ماخوذ ہو گا ، یہ لفظ کسی بھی چیز کی ملاوٹ سے پاک خالص صورت پر بولا جاتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں " لُبّ الرجل" آدمی کی عقل اور دل مراد لیتے ہوئے بھی بولتے ہیں۔
6- تلبیہ میں قربت کا معنی بھی ہے اس صوت میں یہ " الإلباب" سے ماخوذ ہو گا جو کہ قربت کے معنی میں ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ میں اللہ تعالی کے انتہائی قریب ترین ہوتا ہوں۔
7- تلبیہ ملتِ ابراہیمی میں عقیدہ توحید کا شعار اور سلوگن ہے، یہ عقیدہ توحید ہی حج کا مقصد اور حج کی روح ہے، بلکہ صرف حج ہی نہیں تمام عبادات کی روح اور ان کا ہدف بھی عقیدہ توحید ہی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تلبیہ کو عبادتِ حج میں داخلے کیلیے کنجی کی حیثیت حاصل ہے۔
تلبیہ میں درج ذیل امور بھی پائے جاتے ہیں:
· اللہ کیلیے حمد جو کہ قرب الہی حاصل کرنے کیلیے اہم ترین مقام کی حامل ہے۔
· تمام نعمتوں کا اعتراف کہ سب نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں یہی وجہ ہے کہ "النِّعْمَةَ " میں الف لام استغراقی ہے، یعنی تمام قسم کی نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، اور اللہ تعالی نے ہی یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔
· تلبیہ میں اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ سارے جہانوں میں بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ہے، ظاہری ملکیت کسی کی بھی ہو لیکن حقیقت میں اس کا مالک اللہ تعالی ہی ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: "مختصر تهذيب السنن" از: ابن قیم: ( 2/ 335-339 )
· حاجی تلبیہ کہتے ہوئے تمام مخلوقات کو اللہ تعالی کی بندگی اور نعرۂ توحید لگانے میں اپنے ساتھ گنگناتا ہوا محسوس کرتا ہے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان تلبیہ کہے تو اس کے دائیں بائیں حجر و شجر اور مٹی سے بنی ہر چیز یہاں [دائیں] سے یہاں [بائیں]تک پوری زمین تلبیہ سے گونج اٹھتی ہے) ترمذی (828) ابن خزیمہ اور بیہقی نے اسے صحیح سند سے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم.