الحمد للہ.
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ عمل جائزنہيں ، جوعورت بھی عمرہ کرنا چاہے اس کے لیے بغیراحرام میقات تجاوز کرنا جائزنہیں ہے ، اگرچہ وہ حالت حیض میں بھی کیوں نہ ہو ، وہ حالت حیض میں ہی احرام باندھے گي اوریہ احرام صحیح ہوگا اس کی دلیل یہ ہے کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کرنے کی غرض سے ذوالحلیفہ میں تھے توابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی زوجہ اسماء بنت عمیس رضي اللہ تعالی عنہا نے ذوالحلیفہ میں ہی بچہ جنم دیا توانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام بھیجا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
غسل کرکے کپڑے کا لنگوٹ باندھ کراحرام باندھ لو ۔
اورحیض کا خون بھی نفاس کے خون جیسا ہی ہے ، توہم حائضہ عورت کویہ کہيں گے کہ : جب تم عمرہ یا حج کے ارادہ سے میقات پرپہنچو توغسل کرکے کپڑے کا لنگوٹ باندھ کراحرام باندھ لو ۔
اوراستثفارہ کا معنی یہ ہے کہ : عورت اپنی شرمگاہ پرکپڑا باندھے اورپھر احرام باندھ لے چاہے وہ حج کا احرام ہویا عمرہ کا ۔
لیکن جب وہ عورت احرام باندھ لے اورمکہ پہنچے تواسے پاک صاف ہونے سے قبل بیت اللہ جا کرطواف نہيں کرنا چاہیے ، لھذا جب عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوماہواری آئي تو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں فرمایا تھا :
جوکچھ حاجی کرتے ہیں تم بھی وہی اعمال کرو لیکن پاک صاف ہونے سے قبل بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ۔
اسے بخاری اورمسلم نے روایت کیا ہے۔
اورصحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ :
عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ جب وہ حیض سے پاک صاف ہوئي توانہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اورصفامروہ کے مابین سعی کی ۔
تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ : جب عورت حالت حیض میں حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے یا پھراسے طواف سے قبل حیض شروع ہوجائے تووہ حیض ختم ہونے اورغسل کرنے تک طواف اورسعی نہيں کرے گی ، لیکن اگراس نے حیض شروع ہونے سے قبل طواف کرلیا اورطواف کرنے کے بعد اسے حیض شروع ہوا تووہ عمرہ جاری رکھے گي اورصفامروہ کے مابین سعی کرلے گی چاہے وہ حالت حیض میں ہی ہو اورسعی کے بعد اپنے سرکے بال کٹوا کرعمرہ سے فارغ ہوجائے گي ، کیونکہ صفا مروہ کے مابین سعی کرنے کےلیے طہارت کی شرط نہيں ہے ۔اھـ .