الحمد للہ.
آپ كے ليے لباس وغيرہ كے ساتھ يوم عاشوراء ميں بناؤ سنگھار كرنا جائز نہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے اس سے جاہل خود غرض قسم كے لوگ يہ سمجھيں كہ اہل سنت حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كى شھادت پر خوش ہوتے ہيں، حالانكہ حاشا وكلا اہل سنت اس پر راضى اور خوشى محسوس نہيں كرتے.
اور رہا مسئلہ ان كے ساتھ معاملات كرنے ميں ان كى غيبت اور ان كے ليے بددعا كرنا اور اس كے علاوہ دوسرے ايسے كام جو بغض پر دلالت كريں، يہ بھى صحيح اور اس لائق نہيں، ليكن ہم پر واجب اور ضرورى يہ ہے كہ ہم انہيں دعوت دين اور ان پر اثر انداز ہونے اور ان كى اصلاح كى كوشش كريں، اگر انسان كے پاس ايسا كرنے كى استطاعت نہ ہو تو وہ ان سے اعراض كرلے اور انہيں چھوڑ دے، اور صاحب استطاعت كو ايسا كرنے كا موقع دے، اور ايسے معاملات اور كام نہ كرے جو دعوت و تبليغ كے راستے ميں روڑے اٹكائيں.
الشيخ سعد الحميد
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سبب سے شيطان لوگوں ميں دو بدعات پيدا كر رہا ہے: غم و پريشانى اور يوم عاشوراء ميں ماتم اور نوحہ كى بدت، پيٹنا، آہ وبكا كرنا، اور مرثيہ گوئى كرنا، اور رونا وغيرہ، اور فرحت و خوشى كى بدعت:
لہذا ان لوگوں نے غم كى بدعت ايجاد كرلى اور دوسروں نے خوشى و سرور كى بدعت، لہذا يہ لوگ يوم عاشورا ميں سرمہ لگانا، غسل كرنا، اور اہل وعيال پر زيادہ خرچ كرنا اور عادت سے ہٹ كر كھانے پكانے وغيرہ كو مستحب قرار ديتے ہيں،
اور پھر ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے، مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے بھى نہ تو آئمہ اربعہ نے اور نہ ہى كسى دوسرے نے نہ تو يہ مستحب قرار ديا ہے نہ ہى وہ.... ) اھـ ديكھيں: منھاج السنۃ ( 4 / 554 - 556 ) اختصار كے ساتھ پيش كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .