الحمد للہ.
آپ کا غسل صحیح ہے، اور ان شاء اللہ آپ پر کچھ بھی نہیں ہے، آپ نے غسل کر نے اور جسم خشک کرنے کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑا تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس سے غسل میں تسلسل کے ساتھ اعضا دھونے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؛ اس لیے کہ غسل اور کلی و ناک میں پانی چڑھانے کے عمل کے درمیان معمولی سا فاصلہ ہے جس سے تسلسل میں انقطاع نہیں آتا، ویسے بھی غسل کے بعد کلی اور ناک میں پانی چڑھانے سے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے لہذا غسل میں ترتیب سے اعضا دھونا واجب نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (149908 ) اور (88066 )کا جواب ملاحظہ کریں۔
یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ غسل میں کلی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنے کے بارے میں علمائے کرام کے ہاں ناقابل تردید اختلاف موجود ہے، تو چونکہ آپ نے فقہ کے ایسے متخصص شخص سے پوچھا جو آپ کے ہاں مستند تھا، اور انہوں نے ایسے موقف کے مطابق مسئلہ بتلا دیا جو کہ بہ ہر حال معتبر بھی ہے، تو اب آپ پر کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ نے اس کے بتلائے ہوئے مسئلے کے مطابق عمل کر لیا۔ بلکہ آپ نے جو کیا یہی آپ کی ذمہ داری بنتی تھی، چنانچہ اگر یہ پتہ چلے کہ آپ کو مسئلہ بتلانے والے شخص کا موقف غلط تھا تب بھی آپ نے جو کیا وہ صحیح اور معتبر ہو گا، آپ پر ان کا اعادہ لازم نہیں ہے۔
نوٹ: روزے کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ روزہ رکھتے ہوئے انسان طہارت کی حالت میں ہو، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (181351 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
اس بنا پر : اگر کوئی شخص غسلِ واجب نہیں کرتا، یا غسل تو کرتا ہے لیکن وہ غسل صحیح نہیں ہوتا ، اور اس کے بعد روزہ رکھ لیتا ہے، تو اس حالت میں اس کا روزہ صحیح ہو گا۔
واللہ اعلم