الحمد للہ.
اللہ تعالی نے قیامت کے دن کو جمع ہونے کا نام دیا ہے کیونکہ اس میں سب انسان اور جن جمع ہوں گے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( یقینا اس میں ان لوگوں کے لۓ نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں یہی وہ دن ہے جس میں سب لوگ جمع کۓ جائیں گے اور یہی وہ دن ہے جس میں سب لوگ حاضر کۓ جائیں گے ) ھود / 103
اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
( آپ کہہ دیجۓ کہ یقینا سب پہلے اور آخری ایک مقررہ دن میں ضرور جمع کۓ جائیں گے ) الواقعۃ / 49 – 50
اور فرمان ربانی ہے :
( جو بھی آسمان وزمین میں ہیں سب کے سب اللہ تعالی کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ان سب کو گھیر اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے اور یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں ) مریم / 93 - 95
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
( اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور آپ زمین کو صاف اور کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کريں گے اور ان میں سے ایک کو باقی نہیں چھوڑیں گے ) الکھف / 47
تو اس جمع اور حشر میں چوپآئے اور جانور بھی شامل ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جیسا کہ کتاب وسنت سے ثابت ہے سب جانور اور چوپائیوں کو اللہ تعالی جمع کرے گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے بھی پرندے اپنے دونوں پروں کے ساتھ اڑنے والے ہیں ان میں سے کوئی ایسی قسم نہیں کہ جو تمہاری طرح گروہ نہ ہوں ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر سب اپنے رب کے پاس جمع کۓ جائيں گے ) الانعام / 38
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( اور جب وحشی جانور اکٹھے کۓ جائیں گے ) التکویر / 5
ارشاد باری تعالی ہے :
( اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو کچھ اس میں جاندار ہیں ان کا پھیلانا ہے اور وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے انہیں جمع کر دے ) الشوری / 29
اور حرف (اذا ) یہ اس کے لۓ ہوتا ہے جس کا وقوع ضروری ہو اور اس مسئلہ میں بہت سی احادیث مشہور ہیں جب اللہ تعالی قیامت کے دن جانوروں کو جمع کر کے قصاص لینے کے بعد انہیں کہے گا کہ اب مٹی ہو جاؤ تو وہ مٹی ہو جائیں گے تو پھر اس وقت کافر یہ کہے گا ( کاش میں بھی مٹی ہو جاتا ) النباء / 40
تو جو شخص یہ کہے کہ انہیں جمع اور اکٹھا نہیں کیا جائے گا وہ بہت قبیح اور خطرناک غلطی پر ہے بلکہ وہ گمراہ اور یا پھر کافر ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ شیخ الاسلام کی بات ختم ہوئی ۔
مجموع الفتاوی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 248
امام احمد رحمہ اللہ نے حدیث نمبر 20534) ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ :
ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دو بکریاں بھڑ رہی تھیں ایک نے دوسری کو سینگ مارا اور اسے مار ڈالا راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے آپ کو کہا گیا آپ کو کس چیز سے ہنسی آرہی ہے ؟ آپ نے جواب دیا میں نے اس سے تعجب کیا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن اس کا قصاص لیا جائے گا ۔
احمد شاکر نے اس کی سند کو حسن متصل کہا ہے ۔ اھـ
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے حدیث نمبر (2582) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قیامت کے دن حق والوں کا حق ضرور ادا کرو گے حتی کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی کا قصاص لیا جائے گا )
اور جلحاء اسے کہتے ہیں جس کے سینگ نہ ہوں ۔
( یہ واضح اور صریح نص ہے کہ قیامت کے دن چوپآئے بھی اکٹھے ہوں گے اور مکلف آدمیوں کی طرح انہیں بھی دوبارہ اٹھایا جائے گا جیسے کہ بچوں اور پاگل اور ان کو جنہیں دعوت نہیں پہنچی اٹھایا جائے گا اور اس کے دلائل پر قرآن وسنت بھرا پڑا ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( اور جب وحشی جانور اکٹھے کۓ جائیں گے > تو جب شرع میں وارد ہے تو اس کے ظاہر پر اجراء میں کوئی چیز مانع نہیں نہ تو عقل اور نہ ہی شرع تو اسے اس کے ظاہر پر ہی محمول کیا جائے گا علماء کا کہنا ہے کہ : قیامت میں جمع کرنے اور دوبارہ اٹھانے کی یہ شرط نہیں کہ انہیں بدلہ اور سزا یا اجر وثواب ہی دیا جائے اور سینگوں والی سے بغیر سینگوں والی کا قصاص یہ قصاص تکلیف نہیں کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں بلکہ وہ قصاص مقابلہ ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ ا ھـ
قیامت کے دن بندوں کو ننگے جسم اور ننگے پاؤں اور بغیر ختنہ کے اکٹھا کیا جائے گا ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی { جس طرح ہم نے پہلے پیدا کیا اس طرح دوبارہ لوٹائیں گے یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے یقینا ہم اسے کرنے والے ہیں ) اور سب سے پہلے جسے کپڑے پہنآئے جائیں گے وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے اور میری امت میں سے کچھ لوگوں کو بائیں طرف والے پکڑ لیں گے تو میں کہوں گا میرے صحابی میرے صحابی تو مجھے کہا جائے گا کہ جب آپ نے انہیں چھوڑا تھا تو یہ اپنی ایڑیوں کے بل پھر گۓ تھے تو میں بھی اسی طرح کہوں گا جس طرح کہ اللہ کے نیک بندے نے کہا تھا :
( میں جب تک ان میں تھا تو ان پر گواہ تھا تو جب تو نے مجھے فوت کر دیا تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے ) صحیح بخاری 3349
اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم ننگے جسم اور ننگے پاؤں اور بغیر ختنہ کے اکٹھے کۓ جاؤ گے عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا : مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاملہ اتنا سخت ہو گا کہ یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا )
صحیح بخاری حدیث نمبر 6527
اور حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ انسان جن کپڑوں میں فوت ہوا ہو گا انہی میں اٹھایا جائے گا ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی جب موت قریب آئی تو انہوں نے نۓ کپڑے منگوائے اور انہیں پہن لیا پھر کہنے لگے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے کہ ( بیشک میت جن کپڑوں میں فوت ہو انہیں میں اسے اٹھایا جائے گا )
ابو داؤد حدیث نمبر 3114 علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ 1671 میں اسے صحیح کہا ہے ۔
اور ہو سکتا ہے کہ یہ اشکال پیدا کرے کہ پہلی حدیث میں یہ آیا ہے کہ لوگوں کو ننگا اٹھایا جائے گا تو ان احادیث میں جمع کے لۓ علماء نے کئ جواب دیۓ ہیں :
1- بیشک انہی کپڑوں میں اٹھآئے جائیں گے پھر اس کے بعد بوسیدہ ہو جائیں گے تو میدان محشر میں ننگے ہوں گے ۔
2- یہ کہ اٹھائے تو ننگے ہی جائیں گے پھر جب انبیاء اور صدیقوں کو کپڑے پہنائے جائیں گے تو پھر اس کے بعد جن کپڑوں میں فوت ہوئےتھے اسی طرح کے کپڑے پہنائے جائیں گے ۔
3- کپڑوں والی حدیث کو بعض علماء نے شہداء پر محمول کیا ہے کیونکہ انہیں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑوں میں دفن کرنے کا حکم دیا ہے جن میں وہ شہید ہوں تو وہ انہی میں اٹھائے جائیں گے تا کہ لوگوں سے تمییز ہو سکے ۔
4- یہ کہ کپڑوں سے اعمال صالحہ مراد ہیں ۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
( اور تقوی کا لباس ہی بہتر ہے )
تو پھر معنی یہ ہو گا کہ بندہ اس عمل پر ہی اٹھے گا جو اس نے عمل کیا ہو گا اگر اچھے عمل ہوں گے تو اچھائی اور اگر برے عمل ہوں گے تو برائی اس پر مندرجہ ذیل حدیث جابر رضی اللہ عنہ دلالت کرتی ہے :
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئےسنا ( ہر بندہ اس پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوا ہو گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر 2878
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(اللہ تعالی جب کسی قوم کو عذاب دیتے ہیں تو ان میں جو بھی ہو اسے عذاب پہنچتا ہے پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے )
صحیح بخاری حدیث نمبر 7108
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے :
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرفات میں ایک شخص وقوف کر رہا تھا تو اپنی سواری سے گر پڑا تو اس کی گردن ٹوٹ گئي تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اسے پانی اور بیری سے غسل دو اور دو کپڑوں میں کفن دے کر اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا )
صحیح بخاری حدیث نمبر 1265
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مسلمان کو جو بھی زخم اللہ تعالی کے راستے میں لگتا ہے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہو گا کہ اگر اس میں چوک لگائی تو پھٹ پڑے اس کا رنگ تو خون کا ہو گا اور خوشبو کستوری کی ہو گی )
صحیح بخاری حدیث نمبر 237
تو اس لۓ میت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہۓ وہ اس لۓ کہ اس کی زبان سے نکلنے والا آخری کلمہ وہ کلمہ طیبہ ہو اور اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے ۔
دیکھیں فتح الباری جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 383
اور لوگوں کو اس دن اس زمین کے علاوہ دوسری زمین پر اکٹھا کیا جائے گا اور اس زمین کی کچھ معین خصوصیات ہوں گی جسے حدیث نے بیان کیا ہے :
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئےسنا :
( قیامت کے دن لوگ ایسی زمین پر جمع کۓ جائیں جو سفید اور چمکتی ہوئی ہو گی جس طرح کہ صاف ٹکیہ ہو ) سہل یا پھر کسی دوسرے نے یہ کہا ہے کہ اس میں کسی کا نشان نہیں ہو گا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 6521
اور عفراء یعنی ایسی سفید جو کہ سرخی مائل ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چمکدار سفید اور قرصۃ النقی وہ خالص آٹے کی ٹکیہ جس میں چھان وغیرہ نہ ہو ۔
واللہ اعلم .