ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

جائز مزاح کی صورتیں اور مثالیں، نیز خیالی چٹکلوں کا حکم

217461

تاریخ اشاعت : 13-08-2024

مشاہدات : 626

سوال

میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ مذاق کرنا جائز ہے بشرطیکہ مزاح میں بھی سچ بولا جائے، کیا آپ اس کی تفصیل مثالوں کے ذریعے بیان کر سکتے ہیں؟ کیا کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے مزاح کرنا جائز ہے؟ مثلاً: بولنے کا لب و لہجہ ایسا ہو کہ واضح معلوم ہو جائے کہ لفظوں کا مطلب کچھ اور ہے، اور یہ بھی بتلائیں کہ کیا ایسے چٹکلے بیان کرنا جائز ہے جس میں تصوراتی اور خیالاتی کردار پائے جاتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

تمام مسلمانوں کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر قسم کا جھوٹ حرام ہے، بلکہ تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹ قبیح اور حرام فعل ہے، ہر فطرت سلیم کا مالک انسان بھی جھوٹ کے بارے میں یہ موقف رکھتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی دین اور مذہب سے ہو!!

اس لیے مسلمان پر لازم ہے کہ ہر حالت میں سچ بولے ۔

اللہ تعالی نے سچ بولنے کے بارے میں حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ہمراہ رہو۔ [التوبہ: 119]

ایسے ہی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بلا شبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلا شبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے ، یہان تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6094) اور مسلم : (2607) نے روایت کیا ہے۔

ایسے ہی سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں چاروں میں سے ایک عادت ہو تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہے، جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ 1) جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔ 2) اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے ۔ 3) اور جب کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے ۔ 4) اور جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (34) اور مسلم : (58) نے روایت کیا ہے۔

دوم:
مزاح کرتے ہوئے بھی جھوٹ سے ممانعت سنت مطہرہ میں ثابت ہے:
چنانچہ سیدنا بہز بن حکیم کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (ایسے شخص کے لیے تباہی ہے جو بات کرتے ہوئے جھوٹ اس لیے بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے، اس کے لیے تباہی ہے، اس کے لیے تباہی ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (4990) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود"(4990) میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح مزاح کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولنے کی ترغیب بھی احادیث مبارکہ میں موجو دہے:

چنانچہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں جنت کی ایک جانب میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرے۔ اور میں جنت کے درمیان میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو مزاح کرتے ہوئے بھی جھوٹ نہ بولے۔ اور میں جنت کے اعلی بالا خانوں میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو اپنا اخلاق اچھا بنا لے۔) اس حدیث کو ابو داود: (4800) نے روایت کیا ہے اور البانی نے سلسلہ صحیحہ: (273) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ: "گفتگو سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ کسی بھی صورت میں جھوٹ روا نہیں ہے، نہ ہی یہ روا ہے کہ کوئی اپنے بچوں سے وعدہ کرے اور پھر پورا نہ کرے۔" امام بخاری ؒ نے اسے الادب المفرد: (387) میں روایت کیا ہے۔

سوم:

مزاح کی سچ اور جھوٹ کے تناظر میں متعدد شکلیں ہیں:

پہلی صورت: مزاح ایسا ہو کہ اس میں سراپا سچائی ہو جھوٹ کا شائبہ تک نہ ہو تو ایسے مزاح کا بنیادی اصولی حکم جواز کا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ انسان ہر وقت ہی مزاح نہ کرتا رہے، بلکہ میانہ روی اختیار کرے اور اگر مزاح سے کوئی خرابی واقع ہونے کا خدشہ ہو تو تب بھی مزاح سے باز رہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے مطابق: ایسا مزاح منع ہے جس میں حد سے تجاوز ہو، اور ہمیشہ مزاح کیا جائے، کیونکہ کثرت سے ہنسنا دل کو سخت کر دیتا ہے، اور انسان کو ذکرِ الہی سمیت دینی ضروریات کے متعلق غور و فکر کرنے کے بارے رکاوٹیں ڈالتا ہے، نیز اکثر اوقات مزاح کا نتیجہ ایذا رسانی تک جا پہنچتا ہے، جس کی وجہ سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے اور انسانی وقار اور ہیبت راکھ میں ملا دیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مزاح ان تمام چیزوں سے پاک صاف ہو تو وہ ایسا مزاح کرنا جائز ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ایسا مزاح کیا کرتے تھے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ کبھی کبھار کسی بھی مصلحت کی خاطر مزاح کر لیا کرتے تھے، مقصد یہ ہوتا تھا کہ مخاطب کی دلجوئی ہو جائے اور مخاطب ذہنی طور پر تازہ ہو جائے۔ ایسا مزاح کسی صورت میں منع نہیں ہے بلکہ یہ تو مسنون اور مستحب عمل ہے۔" ختم شد
" الأذكار " (377 )

دوسری صورت: مزاح میں جھوٹ شامل ہو، تو مزاح کی یہ شکل سیدنا بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کی روشنی میں منع ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایک شخص لوگوں میں بیٹھ کر خود ساختہ حکایات اور باتیں سناتا ہے جو کہ ساری کی ساری جھوٹ ہی ہوتی ہیں، تو کیا یہ جائز ہے؟
انہوں نے جواب دیا: لوگوں کو ہنسانے یا کسی اور مقصد کے لیے خود ساختہ باتیں سنائے تو وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نافرمان ہے، جیسے کہ سیدنا بہز بن حکیم کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (ایسے شخص کے لیے تباہی ہے جو بات کرتے ہوئے جھوٹ اس لیے بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے، اس کے لیے تباہی ہے، اس کے لیے تباہی ہے۔) اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ: "گفتگو سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ کسی بھی صورت میں جھوٹ روا نہیں ہے، نہ ہی یہ روا ہے کہ کوئی اپنے بچوں سے وعدہ کرے اور پھر پورا نہ کرے۔"

اور اگر مزاح میں کسی مسلمان پر جارحیت بھی ہو، اور دین کے خلاف بھی باتیں کی جائیں تو اس کی حرمت مزید سنگین ہو جائے گی۔ بہ ہر حال ایسی حرکتیں کرنے والا شخص اتنی شرعی سزا کا مستحق ہے جو اسے ان حرکتوں سے روک دے۔ واللہ اعلم" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 32 / 255 – 256 )

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (26 / 52)میں ہے:
"سوال: اگر ہم مذاق میں جھوٹ بولیں تو کیا یہ حرام ہے یا نہیں؟
جواب: جی ہاں یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے چاہے مذاق ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
عبد اللہ بن قعود،       عبد اللہ بن غدیان،      عبد الرزاق عفیفی،        عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔" ختم شد

تیسری صورت: ایسے قصے اور کہانیوں کو ذکر کرتے ہوئے مزاح کرنا جن کے سچے ہونے کا یقین نہ ہو، لیکن ایسے واقعے ہونے کا امکان ہو تو اس صورت میں اہل علم کا وتیرہ یہ رہا ہے کہ اس کے لیے کچھ گنجائش اور نرم پہلو رکھتے آئے ہیں؛ کیونکہ ہمیں بعض اہل علم کی کتابوں میں ایسے لطیفے اور چٹکلے پڑھنے کو ملتے ہیں جو کہ اولین صدیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ایسے واقعات کی قطعیت کی سطح پر صحت پرکھنا ممکن نہیں ہوتا، نہ ہی ان واقعات میں عمداً جھوٹ کا عنصر شامل ہوتا ہے، اور نہ ہی ان واقعات میں جھوٹ نقل کیا جا رہا ہوتا ہے، اگرچہ اسے بیان کرنے والا سچے یا جھوٹے واقعات، قصص اور کہانیوں کی پرکھ نہ بھی کرے۔

الشیخ عبد المحسن الزامل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لطیفوں اور چٹکلوں کی تین صورتیں ہیں:
ایسا لطیفہ اور چٹکلا جس کے صحیح ثابت ہونے کا ہمیں علم ہو تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ صحیح ثابت بات بھی حرام بات پر مشتمل نہ ہو، نہ ہی کسی کا اس میں استہزا ہو، اور نہ ہی کسی کی غیبت ہو۔ لہذا صحیح ثابت شدہ لطیفہ بھی ان تمام چیزوں سے پاک صاف ہونا چاہیے؛ لہذا اگر کوئی قصہ یا کہانی فی نفسہٖ مباح ہے، اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت نہیں ہے اور ایسا واقعہ رونما ہوا بھی ہے، یا غالب گمان ہے کہ رونما ہوا ہو گا، تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوسری صورت: ہمیں معلوم ہو کہ یہ واقعہ جھوٹ ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا، تو اسے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

تیسری صورت: جس کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علم نہ ہو، تو اس کو بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے [اسرائیلیات بیان کرنے کے بارے میں] فرمایا: (بنی اسرائیل سے ان کے واقعات بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔) اور اسرائیلی روایات میں بہت ہی عجیب و غریب واقعات بھی موجود ہیں، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بیان کرنے کا حکم دیا ہے، اور ساتھ یہ بھی بتلایا کہ ان کی روایات میں نہایت اچنبھے قسم کے واقعات بھی ہیں۔

پھر سنن ابو داود میں جید سند کے ساتھ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرتے رہتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی اور پھر نماز کے خیال ہی سے اٹھتے ۔

تو یہ وہ حکایات ہیں جن کے صحیح یا غلط ہونے کا علم نہیں ہے، تو ان کے بارے میں بات پہلے گزر چکی ہے کہ انہیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ان کا جھوٹ ہونا واضح نہ ہو، جیسے کہ اس بات کی طرف ابن کثیر اور دیگر اہل علم کی جماعت نے توجہ دلائی ہے۔" ختم شد

چوتھی صورت:

افسانوی کرداروں کے لطیفے، کہ جنہیں سنتے ہی سامعین سمجھ جاتے ہیں کہ یہ محض افسانہ ہے، حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔

تو ایسے تفریحی واقعات اور لطیفے اگر کسی اچھے مقصد کے لیے خود گھڑے جاتے ہیں تا کہ انہیں تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکے تو متعدد اہل علم نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔

جیسے کہ الشیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"افسانوی واقعات جیسے کہ ہمارے کچھ متقدم علمائے کرام نے مقامات کے نام سے لکھے ہیں جو کہ دینی اور غیر دینی مدارس کے درسی نصاب میں شامل ہیں جیسے کہ مقامات بدیع، اور مقامات حریری وغیرہ ۔۔۔ تو علامہ حریری کہتے ہیں کہ : انہیں اپنے زمانے تک کے تمام علمائے کرام میں سے کوئی ایک عالم دین ایسا نہیں ملا جو جانوروں کے افسانوی قصص کو حرام کہتا ہو، مثلاً: "کلیلہ اور دمنہ " وغیرہ ؛ کیونکہ یہاں مقصود نصیحت کرنا ہوتا ہے اور اچھی بات دوسروں تک ایک مخصوص انداز میں پہچانا ہوتا ہے، اس افسانے کے جزئیات اصل مقصود نہیں ہوتے۔ علامہ حریری کے بعد ہم نے بھی کسی عالم دین کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ انہوں نے مقامات حریری کو حرام قرار دیا ہو۔" ختم شد
" فتاوى الإمام محمد رشيد رضا " ( 3 / 1091 – 1092 )

ایسے ہی الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان جب کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہے: میں تمہیں ایک واقعہ بطور مثال بتلاتا ہوں کہ ایک آدمی ہے اس نے فلاں فلاں اقدامات کیے اور اس کے درج ذیل نتائج آئے ۔ تو ایسے انداز کے ساتھ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ حتی کہ کچھ اہل علم نے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں بھی کہہ دیا کہ: وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ترجمہ: اور ان کے لیے دو آدمیوں کی مثال بیان کر، دونوں میں سے ایک کے دو انگوروں کے باغ ہیں اور ان کے ارد گرد کھجوروں کی باڑ ہے، اور ہم نے ان کے درمیان فصل بھی اگائی۔ [الکھف: 32] یہ کوئی حقیقی واقعہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے محض مثال بیان کی ہے۔ اسی طرح آیت کریمہ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ترجمہ: اللہ تعالی ایک ایسے شخص کی مثال بیان فرماتا ہے جس میں متصادم آرا رکھنے والے لوگ شریک ہیں، اور ایک آدمی ہے جو سالم ہی کسی ایک شخص کی ملکیت ہے، تو کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالی کے لیے ہیں، لیکن ان سے میں سے اکثریت کو علم نہیں ہے۔ [الزمر: 29] میں بھی یہی چیز ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص واقعہ بیان کرے اور اسے کسی معین شخص کی طرف منسوب نہ کرے، اور واقعہ بھی ایسا ہو جس کا رونما ہونا ممکن ہو اور پھر بتلائے کہ اس کے نتائج یہ نکلے تو امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن اگر کسی واقعے کو کسی کی طرف منسوب کیا حالانکہ واقعہ جھوٹ تھا، تو یہ کام حرام ہے اور یہ جھوٹ بولنے کے زمرے میں آئے گا، اسی طرح اگر جھوٹ بولتے ہوئے مقصد یہ ہو کہ مجلس کے حاضرین قہقہہ لگائیں تو اس بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایسے شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے ، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔)" ختم شد
" لقاء الباب المفتوح " (77 / 23) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

اسی طرح الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"بعض بھائ جھوٹے لطیفے بہت زیادہ سنانے لگے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی بات کو سن کر ہنسیں، جب انہیں اس حوالے سے نصیحت کی گئی تو آگے سے وہ کہتے ہیں: ایسا لطیفہ بیان کرنا جائز ہے کہ جس کا رونما ہونا ممکن ہو، چاہے آپ کو اس کے صحیح یا غلط ہونے کا علم نہ ہو۔۔۔ تو کیا یہ بات صحیح ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا:
لطیفہ ایسی بات کو کہتے ہیں جو معمول سے ہٹ کر بات پر مبنی ہو، عام طور پر یہ حقیقی ہوتے ہیں، بسا اوقات تصوراتی اور خیالی بھی ہوتے ہیں، ایسے افسانوی واقعات کا مقصد صرف مثال بیان کرنا ہوتا ہے جیسے کہ مقامات حریری میں واقعات ذکر کیے گئے ہیں، اسی طرح دیگر نے بھی ایسے ادبی چٹکلے لکھے ہیں۔

تاہم صرف لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹے واقعات بیان کرنا منع ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایسے شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے ، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔)

لیکن اگر سامعین کو پتہ ہو کہ بیان کردہ بات صرف تخیل اور افسانے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، لیکن ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جائے ، اور ایسے تصوراتی واقعے میں کسی چیز سے خبردار کرنا مقصود ہو، یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہتے ہوں تو اس میں گنجائش ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد

تو شیخین ابن عثیمین اور ابن جبرین رحمہما اللہ کے فتوے سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ: افسانوی واقعات بیان کرنا تب صحیح ہو گا جب کسی فائدے یا عبرت کے لیے بیان کیے جائیں، اور کسی معین شخص کی طرف ان کی نسبت بھی نہ کی جائے، لیکن اگر کسی معین شخص کی طرف سے ان واقعات کی نسبت کی جائے یا محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے انہیں گھڑا جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔

اس مسئلے میں یہی تفصیل ابن حجر ہیتمی شافعی رحمہ اللہ پہلے بیان کر چکے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ:
"صحیح حدیث میں ہے کہ: (بنی اسرائیل سے روایات بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: (ان میں بہت عجیب و غریب چیزیں ہیں)، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات وقت گزارنے کے لیے سنے جا سکتے ہیں بطور حجت نہیں۔ ختم شد اس سے یہ بھی کشید ہو سکتا ہے کہ عجیب و غریب واقعات سننا جائز ہے، یہ بھی کہ: ہر وہ چیز وقت گزارنے کے لیے سنی جا سکتی ہے جس کا جھوٹ ہونا یقینی نہ ہو ۔ بلکہ جس چیز کا جھوٹ ہونا یقینی ہو اسے بھی سنا جا سکتا ہے لیکن اس شرط پر کہ اس میں نصیحت، بہادری، ضرب الامثال افراد یا حیوانات پر مشتمل کرداروں کے ذریعے پیش کی جائیں۔" ختم شد
" تحفة المحتاج بشرح المنهاج " ( 9 / 398 )

پانچویں صورت: جو کہ سوال میں پوچھی گئی ہے کہ: " کیا کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے مزاح کرنا جائز ہے؟ مثلاً: بولنے کا لب و لہجہ ایسا ہو کہ واضح معلوم ہو جائے کہ لفظوں کا مطلب کچھ اور ہے ۔" ہم اس سے یہ سمجھے ہیں کہ مثلاً: کوئی اپنے دوست سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے پاس فلاں چیز ہے؟ تو دوست کہتا ہے : نہیں۔ لیکن لب و لہجہ ایسا اپناتا ہے کہ مزاح چھلکنے لگے اور سامع کو پتہ چل جائے کہ اس نہیں کا مطلب ہاں ہے۔

تو اس صورت میں اگر ہم لفظ "نہیں" کو دیکھیں تو یہ جھوٹ ہے، کیونکہ "ہاں" کا معنی لفظوں میں نہیں ہے۔

اور اگر ہم سامع کے فہم کو دیکھیں تو پھر ہم اس "نہیں" کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے؛ کیونکہ سامع نے اس سے حقیقی معنی یعنی "ہاں" ہی سمجھا ہے جو کہ سچ ہے۔ ویسے لغت میں کوئی لفظ اپنا حقیقی معنی چھوڑ کر کوئی اور معنی بھی اپنا لیتا ہے جب کسی خاص ماحول اور خاص انداز سے بولا جائے، مثلاً: جملہ "یہ کیا ہے؟" سوالیہ ہے، لیکن انسان اس جملے کو بسا اوقات ایسے لہجے میں بولتا ہے جس سے اسی جملے کو بولتے تعجب یا انکار یا کوئی اور معنی اس سے واضح ہو رہا ہوتا ہے۔

اس صورت سے ملتی جلتی بات امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک کم عقل شخص امام شعبی سے ملا تو اس وقت ان کے ہمراہ ان کی بیوی بھی جا رہی تھی تو اس شخص نے پوچھا: تم دونوں میں سے شعبی کون ہیں؟ تو امام شعبی نے : عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ہے! اہل علم نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء: ( 4 / 311 ) میں اسے ذکر کرنے کے بعد کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

تو یہ پانچویں صورت مشتبہ صورت ہے، اس حوالے سے ہمیں کسی اہل علم کی واضح صراحت نہیں ملی، اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ صورت جائز ہے اس کی گنجائش نکلتی ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب دیگر قرائن موجود ہوں اور مراد واضح ہو؛ اگرچہ مشتبہ چیزوں سے بچتے ہوئے ایسی صورت سے اجتناب بہتر ہے، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ، ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) لیکن پھر بھی جو کوئی مشتبہ چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو محفوظ چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے تو عین ممکن ہے کہ اس کے جانور کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائیں۔۔۔) صحیح بخاری: (52)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب