الحمد للہ.
اول:
اگر یہ سیال مادہ تسلسل کے ساتھ خارج ہو رہا ہے اور آپ اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے ، تو ایسی صورت میں آپ کا حکم سلس البول والے شخص کا ہے، اس لیے آپ یہ کریں گے کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد نماز کے لیے وضو کریں، اور شرمگاہ پر ٹشو پیپر یا کوئی بھی چیز رکھ لیں اور پھر اس کے بعد جو بھی مادہ خارج ہو اس کی پرواہ نہ کریں۔
اس بنا پر آپ صرف دوسری نماز کے لیے وضو کر کے دوسری نماز دوبارہ پڑھیں گے، اس سے پہلے جسم اور کپڑوں کو نجاست کے اثرات سے پاک بھی کریں گے ؛ کیونکہ آپ پر ہر نماز کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔
لیکن اگر اس سیال مادے کے خارج ہونے کا وقت معلوم ہو، یا کبھی کبھار خارج ہوتا ہو، ہمیشہ خارج نہ ہوتا ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، چنانچہ اگر دوران نماز خارج ہو تو آپ نماز اور وضو دونوں کا اعادہ کریں گے، اور آپ کے جسم یا کپڑوں کو یہ مادہ لگا ہے تو اسے دھوئیں گے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ ہوا ہمیشہ خارج نہیں ہوتی ، بلکہ کبھی کبھار مکمل اختیار سے ہوا خارج ہوتی ہے تو ہوا جب نماز میں خارج ہو یا نماز سے باہر ہر دو صورت میں وضو دوبارہ کرنا ہو گا۔" ختم شد
" فتاوى اللجنة الدائمة – دوسرا ایڈیشن" (4/ 256)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اگر کسی انسان سے سفید رقیق مادہ پیشاب سے پہلے یا بعد میں لذت کے بغیر خارج ہوتا ہو، کسی پر نظر پڑنے سے نہیں نہ ہی کوئی چیز یاد آنے پر تو اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"سوال کے آخر میں جو بات ذکر کی گئی ہے اس کے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیال مادہ شہوت کی بنا پر خارج نہیں ہوا، اس لیے یہ واضح ہے کہ یہ مذی یا منی نہیں ہے، یہ لگتا ہے کہ پیشاب کی نالی میں رکا ہوا مادہ ہے جو پیشاب سے پہلے یا کبھی پیشاب کے بعد خارج ہوتا ہے، اس بنا پر اس کا حکم بھی مکمل طور پر پیشاب والا ہی ہو گا، یعنی اس مادے کو بھی دھونا پڑے گا اور جہاں جہاں یہ لگا ہے ان جگہوں کو بھی دھونا لازم ہو گا، پھر وضو دوبارہ کیا جائے گا، اس حوالے سے یہی عمل اس پر واجب ہے۔" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن عثيمين" (11/ 223)
دوم:
جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے اور پھر اس سیال مادے کے نکلنے کا علم ہوا تو اس حوالے سے کچھ تفصیل ہے، چنانچہ :
اگر آپ کو یقین ہو کہ یہ مادہ نماز کے دوران خارج ہوا ہے، یا وضو کے بعد اور نماز سے پہلے نکلا ہے تو آپ کی نماز باطل ہے، استنجا کریں اور جسم یا کپڑے پر جہاں بھی یہ مادہ لگا ہے اسے دھوئیں، اور دوبارہ وضو کر کے شروع سے نماز بھی دوبارہ ادا کریں۔
اور اگر آپ کو شک ہو کہ یہ مادہ نماز میں خارج ہوا ہے یا نماز سے پہلے یا بعد میں، اور آپ کو اس مادے کے نماز کے دوران یا پہلے نکلنے کے متعلق یقین نہیں ہے تو پھر آپ پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہے؛ کیونکہ بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ نے یقیناً نماز مکمل طہارت کی حالت میں شروع کی ہے، اور اس یقین کو محض شک کی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت انسان نماز سے فارغ ہو جائے اور پھر اسے پتہ چلے کہ پیشاب یا مذی کے قطرے خارج ہوئے تھے تو اس کے حکم میں کچھ تفصیل ہے: اگر تو اسے یقین ہے کہ نماز کے دوران قطرے خارج ہوئے ہیں تو نماز اور وضو کا اعادہ کرنا اس پر لازم ہے اس کے لیے پہلے پیشاب یا مذی کی وجہ سے استنجا کرے، مذی کی صورت میں اپنے خصیے بھی دھو لے، پھر مکمل شرعی وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔ لیکن اگر اسے شک ہو اسے معلوم نہ ہو کہ قطرے نماز کے دوران خارج ہوئے ہیں یا نماز کے بعد تو اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہے۔ یعنی نمازی کو شک ہے کہ پیشاب کے جو قطرے اسے نظر آئے ہیں کیا یہ نماز کے دوران خارج ہوئے ہیں یا بعد تو اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب لابن باز "
اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک خاتون نے عصر کی نماز پڑھ لی اور پھر کچھ دیر کے بعد اس نے دیکھا کہ اس کے انڈر وئیر میں نجاست لگی ہوئی ہے، تو کیا وہ نماز دوبارہ پڑھے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر عورت کو نماز کے دوران علم نہیں تھا کہ نجاست اسے لگی ہوئی ہے ، اور اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ نجاست نکلی کب تھی تو اس کی نماز صحیح ہے؛ کیونکہ یہاں بنیادی اصول صحتِ نماز ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم