الحمد للہ.
اس طرح کے مقابلوں کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
ان مقابلوں میں کوئی حرام کام نہ ہو، مثلاً: ستر برہنہ نہ ہو، اور اس کے انعامات میں جوا نہ ہو؛ یعنی اس مقابلے میں شرکت کے لیے فیس جمع نہ کروائی گئی ہو، تو اس صورت میں ایسے مقابلے میں شرکت کرنا جائز ہو گا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے آپ حصہ بھی لے سکتے ہیں اور انعام بھی وصول کر سکتے ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (114530 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوسری صورت:
ان مقابلوں میں کوئی حرام کام ہو، مثلاً: ستر برہنہ ہو، یا اس میں جوا پایا جائے کہ مقابلے میں شریک ہونے والا ہر شخص اس میں سے فیس جمع کروائے تو مقابلے میں حصہ لینا جائز نہیں ہو گا اور نہ ہی انعام وصول کرنا جائز ہو گا؛ کیونکہ انعام لیے بغیر محض مقابلے میں حصہ لے اور فیس جمع کروا دے تو یہی مقابلے میں شرکت ہے اور یہ فیس ان کی معاون بھی ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو، اور تقوی الہی اپناؤ، یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔ [المائدۃ: 2]
ویسے بھی مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب کسی برائی کو دیکھے تو اپنی استطاعت کے مطابق برائی سے روکے، مثلاً: اس میں شریک نہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو تم میں سے برائی کو دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے روکے، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔) مسلم: (78)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو ہر قسم کی خیر پر عمل کی توفیق دے۔
واللہ اعلم