جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مسجد ميں نماز كى ادائيگى كے وجوب كے ليے مسافت كتنى ہے؟

سوال

ميں ان شاء اللہ برطانيا كا سفر كر رہا ہوں تقريبا وہاں ايك ہفتہ رہوں گا جہاں ميرى رہائش ہے وہاں سے مسجد تقريبا ڈيڑھ كلو ميٹر كى مسافت پر ہے ميں اذان نہيں سن سكتا كيونكہ برطانيا كى اكثر جگہوں پر بلند آواز سے نہيں كہى جاتى، اگر ميں روزانہ پانچ بار اتنى مسافت طے كر كے باجماعت نماز كے ليے مسجد جاؤں تو مجھے مشقت اٹھانى پڑے گى ( اللہ نے مجھے اچھى صحت سے نوازا ہے، ليكن روزانہ پانچ بار يہ مسافت طے كرنے كے ليے جھد دركار ہے ) مجھے علم ہے كہ ميں بس استعمال كرسكتا ہوں ليكن يہ روزانہ پانچ بار ہے جس ميں بہت جدوجھد كرنا ہو گى، لہذا كيا ميرے ليے اپنى رہائش ميں اس اتنى مدت ( ايك ہفتہ ) انفرادى نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
ميں نے پڑھا ہے كہ جس مسافت سے اذان سنائى نہ ديتى ہو وہ پانچ كلو ميٹر ہے، ليكن ميرے خيال ميں يہ مسافت بہت طويل ہے، كہ مسلمان شخص سے يہ مسافت طے كر كے مسجد جانے كا مطالبہ كيا جائے تا كہ وہ نماز باجماعت ادا كرے، اس پر مستزاد يہ كہ ميرے خيال ميں اتنى طويل مسافت سے اذان كى آواز سنائى دے جائے، حتى كہ اگر فضاء ميں خاموشى بھى ہو ميرے خيال ميں اس كے متعلق حساب لگانے ميں غلطى ہوئى ہے، گزارش ہے كہ آپ اس كے متعلق اپنى رائے كى وضاحت كريں كہ جہاں ميں رہونگا وہاں نماز ادا كرنا صحيح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" عام حالت ميں لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان كى آواز سننے والے پر اس مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنى واجب ہے جہاں وہ اذان ہوئى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اذان سنى اور وہ نماز كے ليے نہ آيا تو بغير عذر كے اس كى نماز ہى نہيں "

اسے ابن ماجہ دار قطنى اور ابن حبان نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا كہ عذر كيا ہے ؟

تو انہوں نے فرمايا: خوف، يا بيمارى.

صحيح مسلم ميں امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

ايك نابينا شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى نہيں تو كيا ميرے ليے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا: كيا تم نماز كى اذان سنتے ہو ؟

تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "

ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، يا پھر مريض، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )

صحيحين ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث مروى ہے كہ:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں اپنے ساتھ كچھ لوگوں كو جن كے پاس ايندھن ہو لے كر ان مردوں كے پيچھے جاؤں جو نماز كے ليے نہيں آئے اور انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

نماز كى شان تعظيم اور مساجد ميں نماز باجماعت كى ادائيگى پر ابھارنے والى احاديث بہت ہيں، مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ مساجد ميں نماز ادا كرنے كى محافظت كريں، اور ايك دوسرے كو اس كى تلقين اور اس پر تعاون كريں...

ليكن جو شخص مسجد سے اتنا دور ہو كہ لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان كى آواز نہ سنتا ہو تو اس كے ليے مسجد ميں جانا لازم نہيں، مذكورہ احاديث كے ظاہر كى بنا پر اسے اور اس كے ساتھ دوسروں كو اپنى مستقل نماز باجماعت ادا كرنے كا حق حاصل ہے.

ليكن اگر وہ مشقت اٹھا كر ان مساجد ميں نماز باجماعت ادا كريں دور ہونے كى بنا پر جن كى اذان بغير لاؤڈ سپيكر سنائى نہيں ديتى تو ان كے ليے اس ميں عظيم اجروثواب ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لوگوں ميں سب سے زيادہ اجروثواب اسے حاصل ہوتا ہے، جو سب سے زيادہ دور ہو اور زيادہ چل كر آئے "

مساجد كى طرف جانے كى فضيلت اور اس پر ابھارنے كى احاديث بہت زيادہ ہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

مجموع فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 12 / 58 - 61 ).

اذان كى سماعت كے ضابطہ ميں علماء كرام كا كہنا ہے:

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب اذان دينےوالا سننے والا ہو ( يعنى بہرہ نہ ہو ) اور فضاء ميں خاموشى اور سكون، اور ہوا ميں ٹھراؤ ہو، ليكن اگر اذان دينے والا بہرہ ہو اور آدمى غافل ہو، اور فضاء ميں خاموشى و سكون نہ ہو تو بہت ہى كم اذان سنائى ديتى ہے.

ديكھيں: الام ( 1 / 221 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

اذان كى سماعت ميں معتبر يہ ہے كہ مؤذن شہر كے كنارے كھڑا ہو اور ماحول ميں خاموشى اور سكون ہو تو اس اذان كے سننے والے پر نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنا لازم ہے، اور اگر نہيں سنتا تو لازم نہيں. اھـ

ديكھيں: المجموع شرح التھذيب للنووى ( 4 / 353 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

وہ جگہ جہاں سے غالبا اذان سنائى ديتى ہے ـ اگر مؤذن بہرہ نہ ہو ـ وہ بلند و بالا جگہ ہے، اور فضاء ميں سكون و خاموشى ہو، اور آوازوں ميں ٹھراؤ اور سننے والا نہ تو لہو و لعب ميں مشغول ہو اور نہ ہى بھولا ہوا...

ديكھيں: المغنى ( 2 / 107 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد