سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سحری کی فضیلت میں آنے والی احادیث سے مراد روزے داروں کا سحری کرنا مراد ہے۔

سوال

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ : (بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلیے رحمت کی دعا کرتے ہیں) یا سحری کی فضیلت میں کوئی بھی حدیث ہے تو کیا اس سے مراد صرف روزے کیلیے سحری کرنے والے ہی ہیں یا اس وقت میں عام کھانا بھی مستحب ہے چاہے ایک گھونٹ پانی ہی پیا جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سحری سے مراد وہ کھانا ہوتا ہے جو انسان رات کے آخری حصے میں تناول کرتا ہے، اور اسے سحری اس لیے کہا گیا ہے کہ رات کے آخری حصے کو سحر کہتے ہیں اور یہ کھانا اسی وقت میں کھایا جاتا ہے۔
دیکھیں: " لسان العرب " (4/ 351)

سحری کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سحری کرو؛ کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے) بخاری: (1923) ، مسلم (1095)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( سحری تناول کرنا  ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق   ہے) مسلم : (1096)

اور ایک حدیث میں ہے کہ: ( بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں)احمد : (11086) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے  صحیح قرار دیا ہے جبکہ البانی نے اسے "سلسلہ صحیحہ " (1654) میں حسن کہا ہے۔

ان احادیث میں  سحری سے مراد وہ کھانا ہے جو روزے دار اس وقت میں کھاتا ہے؛ کیونکہ سحری کھانے سے روزہ دار  کو روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن آسانی سے گزر جاتا ہے؛ نیز سحری تناول کرنا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کا باعث ہے، اہل علم کی سحری کو بابرکت بنائے جانے سے متعلق گفتگو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا سحری کے مستحب ہونے پر اجماع ہے اور یہ کہ سحری کرنا واجب نہیں، سحری میں برکت کا معاملہ بھی واضح ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن جسم توانا رہتا ہے، اور چونکہ سحری کھانے کی وجہ سے روزہ میں مشقت کا احساس کم ہو جاتا ہے ، اس کی بنا پر مزید روزے رکھنے کو بھی دل کرتا ہے، لہذا سحری کے بابرکت ہونے کے متعلق یہی معنی اور مفہوم صحیح ہے" انتہی
" شرح مسلم  " از نووی:  (7/ 206)

اسی طرح مناوی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں) کا معنی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یعنی وہ لوگ جو روزے میں معاونت کی غرض سے سحری تناول کرتے ہیں، کیونکہ روزے کی وجہ سے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کمزور پڑتی ہے اور یوں  دل  صاف ہوتاہے،   روحانیت کا غلبہ بڑھتا ہے جو کہ اللہ تعالی کے قرب کا موجب بنتی ہے، اسی لیے سحری کرنے کیلیے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے" انتہی
" فيض القدير " (2/ 270)

اور اسی طرح : " الموسوعة الفقهية " (24/ 270) میں ہے کہ:
"روزے دار کیلیے سحری کرنا سنت ہے، ابن منذر نے اس کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کیا ہے" انتہی

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"روزے دار کیلیے طلوعِ فجر سے پہلے سحری کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " (9/ 26)

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سحری میں برکت ہے؟ یہ برکت کیسے ہے؟ [اس کا جواب یہ ہے کہ] سحری سراپا برکت ہے، سب سے پہلے تو یہ عبادت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے، جہنمیوں کی  مخالفت ہے، سحری سے روزہ رکھنے میں معاونت ملتی ہے، انسانی جان کو اس کا حق ملتا ہے کیونکہ انسان نے اس کے بعد کافی دیر تک کھانے پینے سے رکے رہنا ہے، چنانچہ سحری کھانے سے انسان  سارا دن روزہ  -جو کہ اللہ تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے -رکھنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے ، بلکہ سحری روزے کا ابتدائی حصہ بھی ہے۔" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " (147/ 7)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سحری کرنے سے کئی اعتبار سے برکت حاصل ہوتی ہے: سب سے پہلے تو اس میں اتباع سنت ہے، پھر اہل کتاب کی مخالفت، اس کی عبادت کیلیے معاونت، روزے کے دوران چستی، بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بد مزاجی سے بچاؤ،اور مزید یہ کہ  سحری کے وقت کوئی کھانا مانگے تو اسے کھانا دینے کا ، یا اپنے  ساتھ بیٹھ کر سحری کھلا دینے کا موقع ملتا ہے ، اسی طرح سحری کے وقت ذکر اور دعا  کا موقع بھی ملتا ہے اور خصوصاً یہ وقت  قبولیت کا بھی ہوتا ہے، اسی طرح سونے سے قبل اگر کسی نے روزے کی نیت نہیں کی تو اسے روزے کی نیت کرنے کا موقع مل جاتا ہے" انتہی
" فتح الباری " (4/ 140)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے برکت کے جو اسباب ذکر کئے ہیں وہ روزے دار کے ساتھ ہی خاص نہیں ہیں تاہم وہ بھی روزے کی نیت کے ما تحت آتے ہیں، چنانچہ روزے کی نیت بنیادی چیز ہے بقیہ امور اس کے تحت شمار ہوں گے۔

علمائے کرام کا اجماع ہے کہ روزے دار کیلیے سحری کرنا مستحب ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم دین نے غیر روزے دار کیلیے سحری کو مستحب قرار دیا ہو، اگر غیر روزے دار کیلیے سحری مستحب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پابندی فرماتے، تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سحری کرنا مستحب عمل ہے اور سحری کی برکت روزے کی نیت سے سحری کھانے والے کیلیے خاص ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب