الحمد للہ.
وہ شخص جس كى يہ حالت ہو اور وہ نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق وہ كافر ہے اس نے كفر اكبر كا ارتكاب كيا ہے.
ليكن اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرتا ہے تو پھر بالاجماع سب علماء كے نزديك وہ كافر ہے، چنانچہ اگر وہ توبہ كر لے اور نمازوں كى پابندى كرنے لگے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اسے جارى ركھے تو وہ اسلام كے حكم ميں داخل ہوگا، اور پچھلى عمر ميں اس نے جو نمازيں اور روزے جان بوجھ كر عمدا ترك كيے ان كى قضاء ادا نہيں كرے گا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام اپنے سے قبل سب گناہوں كو مٹا ڈالتا ہے، اور توبہ اپنے سے قبل ہر چيز كو ختم كرديتى ہے "
اور اس ليے بھى كہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں جب صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے مرتد لوگوں سے قتال كيا اور لڑے تو ان ميں اسلام كے طرف پلٹ آنے والوں كو انہوں نے روزوں اور نمازوں كى قضاء كا حكم نہيں ديا تھا، حالانكہ صحابہ كرام رسولوں كے بعد سب لوگوں سے شريعت كو جاننے والے ہوتے ہيں.