ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

تلبیہ میں اضافہ کرنے کا حکم

سوال

سوال: کیا حج و عمرہ میں کہی جانے والے معروف تلبیہ میں اضافہ کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا:
( لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ [حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے]آپ ان کلمات سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے)
بخاری: (5915) مسلم: (1184)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ کے یہ الفاظ منقول ہیں:
( لَبَّيْكَ إِلَهَ الْحَقِّ ) [اے سچے معبود میں حاضر ہوں]
احمد (2/341) البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ "(2146) میں صحیح کہا ہے۔

کچھ صحابہ کرام سے ان الفاظ میں کچھ اضافہ بھی ثابت ہے۔

چنانچہ نافع کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تلبیہ میں کہا کرتے تھے:
"لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ"
ترجمہ: میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تجھ سے سعادت مندی حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوں، ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے، میں حاضر ہوں، ثواب کیلئے رغبت صرف تیری طرف ہے اور عمل بھی تیرے لیے ہی ہے۔مسلم: (1184)

اور مصنف ابن ابی شیبہ  (4/283) میں مسور بن مخرمہ کہتے ہیں:
"عمر رضی اللہ عنہ کا تلبیہ اس طرح ہوتا تھا:
" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ، لَبَّيْكَ مَرْغُوْبًا أَوْ مَرْهُوْبًا، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَاءِ وَالْفَضْلِ الْحَسَنِ"
ترجمہ: " حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، تیری رحمت سے پر امید ہو کر اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے حاضر ہوں، میں حاضر ہوں نعمتوں، اور فضل و احسان کرنے والے"

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تلبیہ کے الفاظ میں اضافے پر نہیں ٹوکا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ جائز ہیں۔

چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں  کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ توحید پر مشتمل تلبیہ " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ" [حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے]کہا، اور لوگوں نے بھی اپنے اپنے الفاظ میں تلبیہ کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے الفاظ کو مسترد نہیں فرمایا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے انہی الفاظ میں تلبیہ کہتے رہے"
مسلم: (1218)

چنانچہ حدیث کے ان مجموعی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تلبیہ کا اہتمام کرنا افضل ہے، اور اگر کوئی شخص صحابہ کرام سے منقول  الفاظ یا کسی اور کے [شرعی طور پر جائز] الفاظ کو تلبیہ میں شامل کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تلبیہ کے الفاظ ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:
"احرام باندھنے والے شخص کا تلبیہ انہی الفاظ پر مشتمل ہونا چاہیے، ان میں کمی زیادتی نہ کرے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو ہریرہ کے نقل کردہ الفاظ [یعنی: لَبَّيْكَ إِلَهَ الْحَقِّ]کو شامل کرنے کی گنجائش ہے ؛ کیونکہ ان الفاظ کا مطلب بھی تلبیہ والا ہی ہے، کیونکہ اس میں بھی تلبیہ اور حاضر ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں، تو ان الفاظ کو کہہ کر اسی بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے سچے معبود کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حاضری دی ہے۔

تاہم تلبیہ کے متعلق کسی پر سختی نہیں کرنی چاہیے ، جیسے کہ ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام نے تعظیم الہی  پر مشتمل الفاظ تلبیہ  کے طور پر کہے ہیں، اور ساتھ میں دعائیہ الفاظ بھی شامل کیے ہیں، لیکن میرے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ جو الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہیں انہی پر اکتفا کیا جائے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ الفاظ کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرے، اور جب تلبیہ بند کر دے تو پھر اللہ کی عظمت بیان کرے اور دعائیں مانگے" انتہی مختصراً
" الأم " (2/169-170)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسئلہ: جابر رضی اللہ عنہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ تلبیہ کے الفاظ میں ہم اضافہ کر سکتے ہیں؟
اس کے جواب میں ہم کہیں گے: ہاں کر سکتے ہیں، کیونکہ امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں فرمایا تھا: ( لَبَّيْكَ إِلَهَ الْحَقِّ ) [اے سچے معبود میں حاضر ہوں] یہاں " إِلَهَ الْحَقِّ " موصف کو صفت کی طرف مضاف کیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ: حاضر ہوں، تو ہی معبود برحق ہے۔

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے تلبیہ میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے:
"لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ"

اس لئے اگر کوئی انسان اس طرح کے الفاظ کا تلبیہ میں اضافہ کر لے تو ہمیں امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا، لیکن بہتر یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ الفاظ کا التزام کیا جائے" انتہی
" الشرح الممتع " (7/111)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تلبیہ کے مسنون الفاظ  میں اضافہ کرنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے تلبیہ کے مختلف الفاظ سنا کرتے تھے اور آپ ان میں سے کسی کو ٹوکتے نہیں تھے ، صحابہ کرام کی طرف سے اضافہ شدہ الفاظ میں سے کچھ یہ ہیں:
" لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، نَحْنُ عِبَادُكَ الْوَافِدُوْنَ إِلَيْكَ، اَلرَّاغِبُوْنَ فِيْمَا لَدَيْكَ"

اسی طرح : " لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ "

ایسے ہی " لَبَّيْكَ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَةِ"

یا پھر: " لَبَّيْكَ حَقًّا حَقًّا تَعَبُّدًا وَرِقًّا"

اس طرح کے تمام الفاظ جائز ہیں ؛ کیونکہ ان الفاظ میں انسان  نیک اعمال کا اللہ تعالی سے وعدہ اور عہد کرتا ہے، اور انہی پر گامزن رہنے کا عزم ظاہر کرتا ہے، اسی طرح ان الفاظ میں اللہ تعالی کی شایان شان حمد و ثنا بھی ہے، کیونکہ خیر وہ دیتا ہے، اسی سے خیر حاصل ہوتی ہے، وہ عطا کرنے والا ہے، اس کے ہاں شر نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص  اس طرح کا تلبیہ کہتا ہے تو ان شاء اللہ اس کی عبادت قبول ہوگی، اور اللہ تعالی اسے بقیہ زندگی میں بھی محفوظ رکھے گا" انتہی
شرح : "عمدۃ الاحکام"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب