الحمد للہ.
اللہ تعالی نے بیماری کے باعث روزہ دار پر مشقت کی صورت میں روزہ کھولنے کی اجازت دی ہے، تاہم جن ایام میں روزہ نہیں رکھا ان ایام کی قضا دینا ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اور تم میں سے جو کوئی بھی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو [روزوں کی] گنتی دیگر ایام میں پوری کرے، اللہ تعالی تم پر آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔[البقرة:185]
روزہ کھولنے کیلئے ایسا مرض ہونا چاہیے جس کی وجہ سے روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو، یا بیماری میں اضافے یا شفا یابی میں تاخیر کا باعث ہو، اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (12488) کا مطالعہ کریں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیماری کی متعدد صورتیں ہیں:
1- بیماری کی وجہ سے مریض متاثر نہ ہو، مثلاً: تھوڑا بہت زکام ، سر درد، داڑ دارد وغیرہ تو ایسی صورت میں روزہ کھولنا جائز نہیں ہے۔۔۔
2- مریض کیلئے روزہ رکھنا مشکل ہو جائے، لیکن اسے کسی نقصان کا خدشہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے، چنانچہ اس کیلئے روزہ کھولنا مسنون ہے۔
3- مریض کیلئے روزہ رکھنا مشکل ہو جائے اور اسے نقصان کا خدشہ بھی ہو، مثلاً: ایک شخص گردے یا شوگر کا مریض ہے، یا اسی طرح کوئی شدید بیماری لاحق ہے تو اس پر روزہ رکھنا حرام ہے" انتہی
"الشرح الممتع" (6/341)
چنانچہ اگر دست سخت نوعیت کے ہیں ؛ یعنی روزہ دار کو جسم میں سخت تھکاوٹ اور کمزوری کا سامنا ہے تو اس کیلئے روزہ کھول دینا ضروری ہے، کیونکہ دست زدہ انسان کو اپنے جسم سے خارج شدہ پانی اور نمکیات بحال کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اور اگر پانی و نمکیات پوری نہ ہوں تو ایسا شخص اپنے آپ کو سخت خطرات کے درپے کر دے گا۔
اور اگر دست اتنی شدید نوعیت کے ہیں کہ اگر پانی اور نمکیات کی کمی پورے کرنے والی ادویات استعمال نہ کیں تو اسے سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں تو ایسی صورت میں روزہ کھولنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہوگا۔
تاہم رمضان کے بعد اس دن کی قضا دے گا۔
جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
اگر دست کی وجہ سے معاملہ سخت کمزوری تک پہنچ گیا ہے تو آپ کیلئے روزہ کھولنا مستحب ہے، اور اس تکلیف کیساتھ روزہ مکمل کرنا مکروہ ہے، بعد میں آپ اس دن کے بدلے میں روزہ رکھیں۔
اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو شفا یاب فرمائے۔
واللہ اعلم.