الحمد للہ.
جو خون شرمگاہ کی اندرونی جانب [جہاں روئی رکھی جائے] ہو لیکن بیرونی جانب عیاں نہ ہو تو اسے بھی حیض ہی شمار کیا جاتا ہے، چنانچہ ماہواری کا خون ہونے کیلیے یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ خون بیرونی جانب بھی عیاں ہو جائے، لہذا اگر نازک عضو میں روئی رکھنے پر خون کے اثرات نمایاں ہوں تو اسے بھی حیض ہی کہا جاتا ہے۔
یہ موقف شافعی، حنبلی، اور محمد بن حسن شیبانی رحمہم اللہ کا ہے۔
کیونکہ یہاں اصل مقصود یہی ہے کہ ماہواری کا خون آنے کے بارے میں یقین ہو جائے، جو کہ رحم میں بیضہ کے بار آور نہ ہونے کی وجہ سے خارج ہوتا ہے، اندام نہانی میں داخل شدہ کپڑے پر نظر آنے والا خون اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ رحم سے خارج ہونے والا خون ہی ہے جسے حیض کہتے ہیں۔
اس کی دلیل ہمیں فرمانِ باری تعالی سے بھی ملتی ہے کہ:
( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ )
ترجمہ: وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں: وہ گندگی ہے، چنانچہ گندگی میں عورتوں سے دور رہیں، ان کے پاک ہونے تک ان کے قریب بھی نہ جائیں، لہذا جب پاک ہو جائیں تو تم ان کے پاس وہیں سے آؤ جہاں سے اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے، بیشک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکبازوں سے بھی محبت کرتا ہے۔[البقرة:222]
اس آیت کریمہ میں " قُلْ هُوَ أَذًى " یعنی: آپ کہہ دیں وہ گندگی ہے، اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جیسے ہی گندگی آئے آیت میں دیا گیا حکم لاگو ہو جائے گا، اور یہ گندگی شرمگاہ کی بیرونی جانب عیاں ہونے سے پہلے بھی موجود ہے؛ کیونکہ یہ دردوں اور دیگر حیض کی علامات کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
اس کی ایک دلیل موطا امام مالک (189) میں ام علقمہ سے بھی مروی ہے کہ: (عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس خواتین نماز کے بارے میں پوچھنے کیلیے ڈبیا میں روئی رکھ کر بھیجتی تھیں اس روئی پر حیض کے خون کی زردی لگی ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہا انہیں کہتی تھیں کہ: جب تک رنگت بالکل صاف نہ ہو جائے جلد بازی مت کرو) مطلب یہ ہے کہ حیض سے بالکل اچھی طرح پاک صاف نہ ہو جاؤ۔
اس میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ روئی پر لگی ہوئی زردی کو بھی حیض کی علامت سمجھتی تھیں، اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی۔
اسی طرح ابن ابی شیبہ نے "المصنف" (1/90) میں اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ عَمرۃ بنت عبد الرحمن –آپ کا شمار فقہائے تابعین میں ہوتا ہے متوفی (98 ہجری)- خواتین سے کہا کرتی تھیں: "جب تم [مخصوص عضو میں] روئی داخل کرو اور صاف نہ نکلے تو اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک تمہیں روئی صاف نظر نہ آئے"
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہواری کے اوقات میں اندام نہانی کے اندر خون کا حکم حیض والا ہی ہے، اور اندام نہانی کا اندرونی حصہ وہ ہوتا ہے جو پیروں کے بل اکڑوں بیٹھنے سے عیاں نہ ہو، اور یہ خون ماہواری کے اوقات میں روئی پر لگے ۔۔۔ حیض کی وجہ سے بے وضو اور اس پر مرتب ہونے والے احکامات کا تعلق شرمگاہ کی اندرونی جانب موجود خون کی موجودگی سے متعلق علم کے ساتھ ہے، لہذا اگر وہاں پر خون موجود ہوا تو اس پر حیض کا حکم لگے گا، اور اگر موجود نہ ہوا تو حیض کا حکم نہیں لگے گا۔۔۔ حیض کا خون بسا اوقات وقفے وقفے سے آتا ہے، چنانچہ اگر شرمگاہ میں خون ہو چاہے باہر نہ بھی نظر آئے تو اس پر حیض کا حکم لاگو ہوگا، اور یہ اُکڑوں بیٹھنے سے معلوم ہو سکتا ہے اس صورت میں اس خون پر حیض کا حکم لگانے میں کوئی دقت بھی نہیں ہوگی" انتہی
" الفتاوى الفقهية الكبرى " (1/76)
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر حیض کا خون ایک جگہ [رحم]سے دوسری جگہ [اندام نہانی کا اندرونی حصے] میں منتقل ہو جائے تب بھی وہی حکم لاگو ہو گا جو باہر نکلنے پر لاگو ہوتا ہے، چنانچہ اگر خاتون کو حیض کا خون سورج غروب ہونے سے پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہوا محسوس ہو تو روزے دار ہونے کی صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا چاہے خون باہر کافی دیر کے بعد ہی نکلے" انتہی
"شرح منتهى الإرادات" (1/79)
کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اسے حیض کا خون اس وقت تک نہیں کہا جائے گا جب تک اندام نہانی کی اندرونی جانب سے خون بیرونی جانب نہ آ جائے، یہ موقف حنفی فقہائے کرام کا ہے۔
کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[حیض کا ]خون جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شرمگاہ کے اندر سے باہر آ جائے؛ کیونکہ حیض ، نفاس اور استحاضہ کا خون ظاہر الروایہ کے مطابق ایسے ہی ثابت ہوگا" انتہی
" بدائع الصنائع " (1/39)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ: حیض کا خوان اگر [رحم سے] منتقل ہو جائے -صرف پیٹ میں محسوس ہونے والی درد نہیں- لیکن باہر نہ نکلے بلکہ اندر ہی رہے تو اس کا حکم بھی باہر نکلنے والے خونِ حیض کی طرح ہے، یہ کمزور موقف ہے۔
صحیح موقف یہ ہے کہ عورت اپنا روزہ نہ چھوڑے یا اس کا روزہ اس وقت تک فاسد نہیں ہو گا جب تک حیض کا خون واضح طور پر باہر نہ آ جائے، لیکن اگر صرف درد ہو رہی ہے ، یا اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خون بہہ رہا ہے، لیکن باہر نہیں نکلا تو اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا" انتہی
"جلسات رمضانية" درس نمبر: (16) صفحہ: (20) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"اگر خاتون کو حیض کا خون مغرب سے پہلے منتقل ہونے کا احساس ہو لیکن خون باہر مغرب کے بعد ہی نکلے تو اس کا روزہ مکمل ہے؛ صحیح موقف کے مطابق روزہ باطل نہیں ہو گا؛ کیونکہ جسم کے اندر موجود خون کا کوئی حکم نہیں ہوتا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے نیند میں مرد کی طرح خواب آتے ہیں تو کیا اس پر غسل ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (جی ہاں اگر اسے پانی [منی] نظر آئے) تو یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی دیکھنے پر حکم لگایا ہے منی کے منتقل ہونے پر نہیں، چنانچہ اسی طرح حیض کا حکم بھی اسی وقت لگے گا اور اس پر مرتب ہونے والے احکامات بھی اسی وقت لاگو ہوں گے جب حیض کا خون باہر نکل آئے محض منتقل ہونے سے حیض کا حکم لاگو نہیں ہو گا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (11/ 235)
لیکن پہلا قول زیادہ راجح ہے؛ کیونکہ ان کے دلائل قوی ہیں، اور اسی کو ہمارے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ راجح قرار دیتے ہیں۔