الحمد للہ.
نفلى نماز گھروں ميں ادا كرنا افضل ہے، الا يہ كہ اگر وہ نماز ادا كرنے كے مسجد ميں جمع ہونا مسنون ہو مثلا چاند يا سورج گرہن كى نماز، يا اس نماز كو مسجد ميں ادا كرنے كى ترغيب ثابت ہو مثلا نماز جمعہ سے پہلے نفلوں كى ادائيگى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول اور فعل سے ايسا كرنا ثابت ہے، اس كے دلائل مندرجہ ذيل ہيں:
1 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے گھروں ميں كچھ نماز ادا كيا كرو اور انہيں قبروں نہ بناؤ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 422 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 777 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" اپنى نماز ميں سے كچھ گھروں ميں ادا كيا كرو اور انہيں قبريں نہ بناؤ "
اس كا معنى يہ ہے كہ: انہيں قبروں كى طرح نماز سے چھوڑا ہوا نہ بناؤ، اور اس سے مراد نفلى نماز ہے، يعنى اپنے گھروں ميں نفل ادا كرو.
ديكھيں: شرح مسلم ( 6 / 67 ).
2 - زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجرہ ـ راوي كہتے ہيں ميرے خيال ميں كہا كہ: چٹائى سے ـ رمضان المبارك ميں بنايا اور وہاں كچھ راتيں نماز ادا كى اور ان كى نماز سے كچھ صحابہ بھى ان كے پيچھے نماز ادا كرتے رہے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كا علم ہوا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم بيٹھنا شروع ہو گئے، اور پھر صحابہ كى جانب نكلے اور فرمايا:
" مجھے معلوم ہے جو كچھ تم كرتے رہے ہو لوگو اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو كيونكہ فرضى نماز كے علاوہ باقى نماز اس كے گھر ميں افضل ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 698 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 781 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس سےظاہر يہ ہوتا كہ يہ سب نوافل كو شامل ہے؛ كيونكہ مكتوبہ سے فرضى نماز مراد ہے، ليكن يہ اس پر محمول ہوگى جس ميں جماعت مشروع نہيں، اور اسى طرح جو مسجد كے ساتھ خاص نہيں، مثلا تحيۃ كى دو ركعت ہمارے بعض آئمہ نے ايسے ہى كہا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 215 ).
3 - عبد اللہ بن شقيق بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نفلى نماز كے متعلق دريافت كيا تو وہ فرمانے لگيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ظہر سے قبل ميرے گھر ميں چار ركعت ادا كرتے اور پھر جا كر لوگوں كو نماز پڑھاتے، اور پھر آكر دو ركعت ادا كرتے، اور لوگوں كو مغرب كى نماز پڑھا كر آتے اور دو ركعت ادا كرتے، اور لوگوں كو عشاء كى نماز پڑھا كر ميرے گھر آتے تو دو ركعت ادا كرتے، اور رات كو نو ركعت ادا كرتے ان ميں وتر بھى شامل ہوتے تھے، اور وہ رات كو بہت لمبى نماز كھڑے ہو كر اور بيٹھ كر ادا كرتے، جب كھڑے ہو كر قرآت كرتے تو سجدہ اور ركوع بھى كھڑے ہو كر كرتے اور جب بيٹھ كر قرآت كرتے تو ركوع اور سجدہ بھى بيٹھ كر رہى كرتے، اور جب فجر طلوع ہو جاتى تو ركعت ادا كرتے تھے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 730 ) اور اسى طرح كى حديث صحيحين ميں بھى ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:
اس ميں سنن مؤكدہ گھر ميں ادا كرنے كا استحباب پايا جاتا ہے، جيسا كہ اس كے علاوہ بھى مستحب ہيں، اور ہمارے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى كہنا ہے، ہمارے اور ان كے ہاں برابر ہے كہ چاہے وہ سنن مؤكدہ دن كے فرضوں كى ہوں يا رات كے فرضوں كى.
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 6 / 9 ).
4 - جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے جب كوئى اپنى مسجد ميں نماز ادا كرے تو وہ اپنے گھر كے ليے اپنى نماز ميں سے گھر كے ليے بھى كچھ حصہ ركھے، كيونكہ اللہ تعالى نے اس كے گھر ميں نماز كو بہتر بنايا ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 778 ).
مناوى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جب تم ميں سے كوئى اپنى مسجد ميں نماز ادا كرے "
يعنى: اس نے فرض جماعت والى جگہ ميں ادا كيے اور مسجد كو اس ليے خاص كيا ہے كہ غالب طور پر وہاں ہى ادا كيے جاتے ہيں.
" تو وہ اپنے گھر كے ليے " يعنى جہاں وہ رہائش پذير ہے.
" كچھ حصہ " يعنى حصہ.
" اپنى نماز ميں سے" يعنى: فرض مسجد ميں ادا كرے اور نفل گھر ميں تا كہ گھر اور اہل وعيال ميں بركت ہو، جيسا كہ فرمايا:
" كيونكہ اللہ تعالى اس كے گھر ميں اس كى نماز بنانے والا ہے" يعنى اس سبب اور اس كى وجہ سے.
" بہتر" يعنى كثير اور عظيم اجر كا باعث، گھر كو اللہ تعالى كے ذكر اور اس كى اطاعت كے ساتھ معمور كرنےاور فرشتوں كے حاضر ہو كر خوشخبرى دينے دينے كى بنا پر، اور اس كے اہل و عيال كو جو اجروثواب اور بركت حاصل ہو گى اس كى بنا پر.
اور اس ميں يہ بھى ہے كہ:
نفلى نماز گھر ميں ادا كرنا مسجد ميں ادا كرنے سے بہتر ہے، چاہے وہ مسجد الحرام ہى كيوں نہ ہو....
ديكھيں: فيض القدير ( 1 / 418 ).
اس كے دلائل بہت زيادہ ہيں، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنن مؤكدہ اور قيام الليل اور چاشت كى نماز يہ سب گھر ميں ہى ادا ہوتى تھيں، اختصار كرتے ہوئے ہم نے ان دلائل كو ترك كيا ہے، اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے وہى كافى ہے، اور بعض علماء كرام نے اس كى حكمت بھى ذكر كي ہيں:
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نفلى نماز گھر ميں افضل ہے.... اور اس ليے بھى كہ گھر ميں نماز ادا كرنا اخلاص كے زيادہ قريب ہے، اور رياء كارى اور دكھلاوے سے دور، اور يہ سرى عمل ميں سے ہو گا، اور مسجد ميں ادائيگى علانيہ ہے اور سرى عمل كرنا افضل ہے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 1 / 442 ).
اور اس ميں بھولے ہوئے كے ليے ياد دہانى بھى ہے، اور گھر والوں يا ديكھنے والے جاہل كے ليے تعليم بھى.
چاند يا سورج گرہن كى نماز مسجد ميں ادا كرنے كے دلائل:
5 - ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھے تو سورج گرہن ہو گيا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى چادر كھينچتے ہوئے اٹھے حتى كہ مسجد ميں داخل ہو ئے اور ہم بھى داخل ہوئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں دو ركعت پڑھائيں حتى كہ سورج صاف شفاف ہو گيا.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ نے فرمايا:
" يقينا سورج اور چاند كسى كى موت يا كسى كے پيدا ہونے كى بنا پر گرہن زدہ نہيں ہوتے، جب تم انہيں اس حالت ميں ديكھو تو نماز پڑھو اور دعاء كرو حتى كہ تم اس حالت سے نكل جاؤ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 993 ).
نماز جمعہ سے قبل نفلى نماز مسجد ميں ادا كرنے كى دليل:
6 - سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے جمعہ كے روز حسب استطاعت طہارت و پاكيزگى اختيار كى اور پھر تيل لگايا يا خوشبو لگائى اور پھر ( مسجد ) گيا اور دو اشخاص كے مابين عليحدگى نہ كى اور جتنى اسكے مقدر ميں تھى اس نے نماز ادا كى اور جب امام نكلا تو اس نے خاموشى اختيار كر لى، تو اس كے اس جمعہ سے ليكر آئندہ جمعہ تك كے گناہ معاف ہو جاتے ہيں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 868 ).
واللہ اعلم .