الحمد للہ.
اول:
حج کیلئے مالی اور بدنی استطاعت رکھنے والے کیلئے یہ ضروری ہے کہ جلد از جلد حج کر لے، تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، اور اس بات کا تفصیلی بیان پہلے فتوی نمبر: (41702) میں گزر چکا ہے۔
دوم:
حصول اولاد شادی کے بنیادی مقاصد میں سے ہے، اور اس کے بہت ہی مثبت اثرات اور فوائد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں افزائش نسل کی ترغیب دلائی ہے۔
ہم آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ آپ پہلے حصول اولاد کیلئے کوشش کریں، اور اس کام کیلئے جتنی تاخیر ہو چکی ہے اس سے زیادہ مزید تاخیر مت کریں، کیونکہ آپ کے مطابق دو سال سے آپ نے اس اہم ہدف کو مؤخر کیا ہوا ہے، یقیناً اولاد اللہ تعالی کی انسان پر عظیم نعمتوں میں سے ہے۔
اگرچہ حج جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ فوری طور پر ادا کرنا فرض ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی معقول عذر ہو تو حج کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، ویسے بھی آپ کو علم نہیں ہے کہ اللہ تعالی کب اولاد کی نعمت سے نوازے، اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اولاد سے بھی نواز دے اور حج کے اسباب بھی پیدا فرما دے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایک خاتون کہتی ہے: میں پہلی بار حج کرنا چاہتی ہوں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،
سب سے چھوٹا بچہ پانچ ماہ کا ہے، میں اسے اپنا دودھ پلاتی ہوں، تاہم میرا بچہ دودھ
کیساتھ دوسری غذا بھی لے سکتا ہے، لیکن میرے خاوند نے مجھے دودھ پلانے کی وجہ سے حج
پر جانے سے روک دیا ہے، اور میں اپنے بچے کو ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتی کیونکہ
مجھے آب و ہوا کی تبدیلی سے بچے کے بیمار ہونے کا خدشہ ہے، ویسے بھی مجھے حج کے
دوران بچے کو وقت دینا پڑے گا، تو کیا ان سب چیزوں کی وجہ سے اس سال حج نہ کرنے کی
رخصت مل سکتی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جس عورت کی یہ صورت حال ہو تو وہ آئندہ سال کیلئے حج مؤخر کر سکتی ہے، اس کی کچھ
وجوہات ہیں:
1- بہت سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ حج فوری طور پر ادا کرنا واجب نہیں ہے، چنانچہ حج کی استطاعت کے با وجود حج کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
2-
اس خاتون کا بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ان کے پاس ہونا ضروری ہے، بچوں
کی دیکھ بھال میں بھی بہت بڑا اجر ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے، اور اس سے اپنے ماتحت بچوں کے بارے میں
پوچھا جائے گا)
اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ: آئندہ سال تک انتظار کر لے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو
ہیں کہ اس کیلئے معاملات آسان فرمائے، اور اس کیلئے بہتر فیصلہ فرمائے"
" مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" (21/ 66)
حصول اولاد کیلئے فوری کوشش کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جس کی وجہ سے مزید تاخیر درست نہیں ہے کیونکہ آپ کی اہلیہ بھی بچوں کے حصول کیلئے بھر پور تمنا رکھتی ہے، اور اولاد کا حصول میاں بیوی کا یکساں حق ہے، چنانچہ اگر کسی ایک فرد کی طرف سے اولاد کی چاہت کا اظہار کیا جائے تو جیون ساتھی کیطرف سے کسی قابل قبول عذر کے بغیرچاہت پوری کرنے میں تاخیر کرنا یا اسے یکسر مسترد کرنا درست نہیں ہے۔
جبکہ حج اگرچہ واجب ہے لیکن اس کا وجوب صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو حج کیلئے استطاعت رکھے، چنانچہ حمل اور زچگی کی وجہ سے حج کی استطاعت متاثر ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ حج کی استطاعت حاصل کرنا یا حج واجب ہونے کی شرائط پوری کرنے کیلئے جد و جہد کرنا مکلف پر واجب نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص فقیر ہے تو اس کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ مال جمع کرے جس کی وجہ سے حج کیلئے مالی استطاعت پیدا ہو سکے۔
اور اگر کوئی بیمار ہے تو اس پر یہ واجب نہیں ہے کہ حج کیلئے علاج کروائے، اور صحت یابی کے اسباب جمع کرنا شروع کرے تا کہ بدنی استطاعت حاصل کر سکے ۔
حج کی استطاعت وغیرہ کیلئے لگائی جانے والی شرائط کے بارے میں فقہی اصطلاح میں کہا جاتا ہے: " ما لا يتم الوجوب إلا به " یعنی: وہ شرائط جن کے بغیر کوئی بھی عبادت مکلف کے ذمہ داری میں نہیں آسکتی، ان شرائط کے بارے میں کہتے ہیں: کہ ان کو حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا مکلف پر واجب نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے کو "
ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب
" سے موسوم کیا جاتا ہے، اور اس کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی
ہوئی ہے، چنانچہ انہوں نے اس کی یوں تقسیم کی ہے:
1- جس کے بارے میں مکلف شخص کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، مثلاً: جسمانی صحت، اور جمعہ کی ادائیگی کیلئے مطلوبہ تعداد کا جمع ہونا، یا اسی طرح کے دیگر مسائل جن میں مکلف کا کوئی بس نہیں چلتا۔
2- جس کے بارے میں مکلف استطاعت رکھتا ہے، مثلاً: حج کیلئے سفر کرنا، وضو کرتے ہوئے سر کے کچھ حصے کو دھونا، روزے میں رات کے کچھ حصے میں کھانے پینے سے رکنا وغیرہ
ان دونوں کے بارے میں انہوں نے کہا: "مطلق واجب جس کام کے بغیر ادا نہ ہو اور وہ مکلف کی دسترس میں بھی ہو تو وہ کام بھی واجب ہوتا ہے"
اصل میں یہ تقسیم ہی غلط ہے؛ کیونکہ جن چیزوں کو انہوں نے بطور مثال پیش کیا ہے یہ حقیقت میں وجوب کی شرائط ہیں ، یعنی ان چیزوں کے بغیر مذکورہ عبادات واجب ہی نہیں ہوتیں، اور جن چیزوں کے بغیر عبادات واجب ہی نہیں ہوتیں انہیں حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب نہیں ہے، چاہے اس کی دسترس میں ہو یا نہ ہو، جیسے کہ حج کے بارے میں استطاعت، زکاۃ کیلئے مالی نصاب وغیرہ، لہذا اگر کسی شخص کے پاس حج کرنے کی استطاعت ہے تو اس پر حج کرنا واجب ہے، اسی طرح کسی کے پاس نصاب کے برابر مال ہے تو اس پر زکاۃ واجب ہے، کیونکہ زکاۃ اور حج اسی وقت واجب ہونگے جب ان کے پاس استطاعت اور مالی نصاب موجود ہوگا، لیکن حج کیلئے استطاعت اور نصاب کے برابر مال حاصل کرنا بندے پر واجب نہیں ہے"
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاں حج کے بارے میں استطاعت سے مراد
مالی استطاعت ہے، جیسے کہ یہ موقف ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد کا ہے، تو یہ تمام اس
شخص پر مال کمانا فرض قرار نہیں دیتے" انتہی
"درء تعارض العقل والنقل" (1/211-212)
اسی طرح دیکھیں: "المسودة فی أصول الفقہ" (1/52)
اور ابن مفلح کہتے ہیں کہ:
"جس عبادت کا وجوب کسی چیز کی وجہ سے ہی ممکن ہو تو اس چیز کے حصول کیلئے کوشش
کرنا اجماعی طور پر واجب نہیں ہے، چاہے وہ کام مکلف کی دسترس میں ہو جیسے کہ حج
اور کفارہ کیلئے مال کمانا۔۔۔ یا مکلف کی دسترس میں نہ ہو، جیسے کہ : لکھنے کیلئے
ہاتھ اور جمعہ کی ادائیگی کیلئے مطلوبہ تعداد کا پورا ہونا اور خطیب کا منبر پر آنا۔"
"أصول الفقہ" از: ابن مفلح (1/211)
واللہ اعلم.