سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان میں غروب آفتاب کے وقت روزہ افطار کرنے کیلیے ملازمت کے قوانین آڑے آتے ہیں ، تو کیا روزے چھوڑ سکتا ہے؟

222129

تاریخ اشاعت : 26-06-2016

مشاہدات : 5431

سوال

سوال: ایک شخص اٹلی میں سارا دن کام کرتا ہے اور یہاں پر ملازمت کے قوانین میں ہے کہ صرف کھانے پینے کے اوقات میں ہی کھایا پیا جا سکتا ہے، اس لیے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس کیلیے وقت پر افطار کرنا ممکن نہیں ہو گا، اور اگر روزہ نہ کھولے بلکہ جاری رکھے تو یہ اس کیلیے سخت گراں ہو گا نیز وہ ڈیوٹی بھی نہیں دے پائے گا تو کیا اس کیلیے ہر روزے کے بدلے میں کفارہ دینا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان کے روزے رکھنا اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے، اس لیے ہر مسلمان پر اللہ تعالی کے حکم کے مطابق روزے رکھنا فرض ہے، ان کی ادائیگی میں سستی نہ کرے اور کسی بھی دنیاوی کام کو روزوں پر ترجیح نہ دے، تاہم اگر دنیاوی امور کا روزوں سے تعارض اور تصادم پایا جائے تو دونوں کام سر انجام دیتے ہوئے اپنی دنیاوی و اخروی کامیابی کا سامان کرے، اور اگر دونوں کو سر انجام دینا ممکن نہ ہو تو دین کے بنیادی رکن کے بارے میں فانی دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے کوتاہی کا مظاہرہ مت کرے، اس لیے روزوں کو ترجیح دے اور پیش آمدہ دنیاوی امور کیلیے حل تلاش کرے، اگر دنیاوی معاملات کی پریشانی میں کمی ممکن ہو تو کمی لائے اور اگر متبادل راستہ ملے تو اسی کو استعمال کرے چاہے اس سے یومیہ آمدن میں کمی ہی کیوں نہ واقع ہو؛ کیونکہ آخرت کا ثواب اور اجر دنیا سے کہیں عظیم تر ہے، ویسے بھی جو شخص دین کی وجہ سے دنیا کو چھوڑ دے تو اللہ تعالی اس کی دنیاوی ضروریات خود ہی پوری فرما دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا *  وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ )
ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اختیار کرے تو اللہ اس کیلیے راستے بنا دیتا ہے ٭ اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق:2- 3]

امام احمد رحمہ اللہ (20215) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام سے روایت کیا ہے کہ : ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے وہ باتیں سکھانا شروع کیں جو اللہ تعالی نے انہیں سکھائی تھیں، ان میں یہ بھی تھا کہ: (تم کچھ بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے چھوڑ دو تو اللہ تعالی تمہیں اس سے بھی اچھی چیز عطا فرمائے گا)
البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ ضعیفہ "(1/62) میں صحیح کہا ہے۔

ابن ماجہ (257) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اپنی تمام تر  فکر آخرت کیلیے بنا لے تو اللہ تعالی اسے دنیا کی تمام  پریشانیوں میں کافی ہو جائے گا، اور جس کی فکر دنیا کے بارے میں ہی ہو تو اللہ تعالی کو اس کی پروا نہیں رہتی کہ وہ کہیں بھی برباد ہو جائے)
اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابن ماجہ" (207) میں حسن قرار دیا ہے۔

ترمذی: (2465) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کی فکر آخرت کیلیے مختص ہو تو اللہ تعالی اس کے دل کو غنی بنا دیتا ہے، اس کے بکھرے ہوئے امور سمیٹ دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے، اور جس شخص کی فکر صرف دنیا ہی ہو تو اللہ تعالی غربت اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے، اس کے معاملات مزید بکھیر دیتا ہے، اور اسے دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہو)
اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی" میں صحیح کہا ہے۔

اس لیے رمضان کے روزوں کو ایسی کھوکھلی دنیا کی وجہ سے چھوڑنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ شرعی طور پر یہ روزہ چھوڑنے کا عذر ہی نہیں بنتا، اس لیے آپ کیلیے روزے چھوڑ کر ان کے بدلے میں کفارہ دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ آپ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں، اور کفارہ ان لوگوں کیلیے ہے جو روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے جیسے کہ انتہائی بوڑھے لوگ، دائمی بیمار افراد ، انہیں رخصت دیتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ) [البقرة:184]
یعنی: جو لوگ روزہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انہیں نا قابل برداشت حد تک تکلیف ہو تی ہے  جیسے کہ بوڑھے لوگ  تو ان پر روزانہ  ایک مسکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے۔
تفسیر سعدی: (86)

شیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید اور شیخ عبد العزیز بن باز رحمہما اللہ لکھتے ہیں کہ:
"رمضان کے روزے اصولی طور پر واجب ہے، اس لیے تمام مکلف مسلمانوں کی طرف سے روزے کی رات کے وقت فجر سے پہلے نیت کرنا فرض ہے، چنانچہ طلوع فجر کے وقت روزے سے ہونا ضروری ہے تاہم جن لوگوں کو شریعت نے رخصت دی ہے صرف وہی طلوعِ فجر کے وقت روزے کے بغیر رہ سکتے ہیں، ان میں بیمار، مسافر اور ان دونوں کے حکم میں آنے والے لوگ شامل ہیں، نیز محنت اور جفا کشی والے ،کام کرنے والے لوگ بھی عام لوگوں کی طرح روزے رکھیں گے، انہیں بیماروں یا مسافروں کی طرح رخصت حاصل نہیں ہے، اس لیے وہ بھی فجر سے پہلے روزے کی نیت کریں گے اور فجر کے وقت روزے کی حالت میں ہونا ضروری ہے ، تاہم دن میں جسے روزہ افطار کرنے کی سخت ضرورت محسوس ہو تو وہ بقدر ضرورت کھا پی کر روزہ افطار کر سکتا ہے لیکن بقیہ دن کھانے پینے سے احتراز کرے، اور بعد میں مناسب وقت کے اندر اس کی قضا دے، اور جس شخص کو روزہ افطار کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو تو وہ روزہ مکمل کرے، کتاب و سنت کے شرعی دلائل اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں، اور تمام فقہی مذاہب کے محقق علمائے کرام کی یہی رائے ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (15/ 245-246)

اس لیے اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے ادارے  سے رجوع کرے اور اس ظالمانہ شق سے  استثناء حاصل  کرے تا کہ غروب آفتاب کے وقت اسے روزہ افطار کرنے کی اجازت دی جائے یا اس کی ڈیوٹی ہی رات کے وقت لگا دیں، چنانچہ اگر یہ بات مان لیں تو اچھا ہے وگرنہ کہیں اور کام تلاش کرے، اور روزے ضائع مت کرے؛ کیونکہ جو شخص اللہ کیلیے کسی چیز کو ترک کر دے تو اللہ تعالی اسے اس سے اچھا نعم البدل عطا فرمائے گا۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (65803) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب