سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بلياں پالنے كا حكم

22373

تاریخ اشاعت : 28-08-2007

مشاہدات : 7953

سوال

مجھے يہ تو علم ہے كہ اسلام بليوں كو پاكيزہ اور طاہر حيوانات كى نظر سے ديكھتا ہے، ليكن مجھے يہ علم نہيں كہ اسے مانوس حيوانات كى طرح گھر ميں ركھنے كا حكم كيا ہے.
ميرے پاس بليوں كى مخالفت ميں كوئى دليل تو نہيں، ليكن ميں يہ محسوس كرتى ہوں كہ اسے گھر ميں رہنے دينا كہ وہ كچن اور كمروں وغيرہ ميں گھومتى پھرے، يہ صحيح نہيں ؟
آپ اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان كے ليے شرعى طور پر جائز ہے كہ وہ مباح اشياء كو اپنى ملكيت بنا سكتا ہے، جو كسى نے بھى ملكيت ميں نہ لى ہوں، مثلا صحرا سے ايندھن اكٹھا كرنا، يا جنگل سے لكڑياں لينا، اور اسى طرح بلياں پكڑ كر ان كو پالنا اور تربيت كرنا، اور مباح چيز پر ہاتھ ركھنے، يا اس پر فعلى غلبا حاصل كرنے سے مباح چيز كى ملكيت حاصل ہو جاتى ہے، جب كہ وہ كسى كى ملكيت نہ ہو.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا جو بلياں كسى كى ملكيت نہ ہوں انہيں ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ انسان انہيں كھانے پينے كو دے، اور انہيں تكليف مت دے، ليكن جب يہ ثابت ہو جائے وہ بلى نقصان دہ ہے مثلا وہ بيمار ہو، يا يہ خدشہ ہو كہ اس كى بنا پر كسى كو كوئى بيمارى منتقل ہو جائيگى، اس كا ثبوت ہونے پر اسے نہيں ركھنا چاہيے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نہ تو اپنا نقصان كرو، اور نہ ہى كسى كو نقصان دو "

تو جسے بلى كے وجود سے نقصان اور ضرر پہنچتا ہو اسے بلى نہيں ركھنى چاہيے، اور اسى طرح جو اسے كھلانے اور پلانے كى استطاعت نہ ركھے تو وہ بھى اسے چھوڑ دے تا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھا كر گزر بسر كر لے، اور وہ اسے اپنے گھر ميں محبوس نہ كرے.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك عورت كو بلى كى بنا پر عذاب ديا گيا، اس عورت نے بلى كو باندھ ديا حتى كہ وہ مر گئى وہ اسے نہ تو كھانے كے ليے كچھ ديتى اور نہ ہى پينے كے ليے، اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھائے، تو وہ عورت بلى كى وجہ سے آگ ميں داخل ہو گئى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3223 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1507 ).

مزيد تفصيل اور معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 3004 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور بلى اگر كھانے ميں سے كچھ كھا جائے، يا پانى پى جائے تو وہ پليد اور نجس نہيں ہو جاتا، كيونكہ ابوداود وغيرہ ميں حديث ہے:

ايك عورت نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو ہريسہ بھيجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھيں، انہوں نے نماز ميں ہى اشارہ كيا كہ وہ اسے ركھ دے، تو بلى آئى اور آكر اس ميں سے كھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز كے بعد اسى جگہ سے ہريسہ كھايا جہاں سے بلى نے كھايا تھا، اور فرمايا: بلا شبہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يہ ( بلى ) پليد اور نجس نہيں، بلكہ يہ تو تم پر آنے جانے والياں ہيں"

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بلى كے بچے ہوئے پانى سے وضوء كرتے ہوئے ديكھا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 69 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

كبشہ بنت كعب بن مالك جو كہ ابن ابى قتادہ كى بيوى ہيں وہ بيان كرتى ہيں كہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو ميں نے ان كے وضوء كے ليے پانى برتن ميں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پينے لگى، تو انہوں نے اس كے ليے برتن ٹيڑھا كر ديا حتى كہ اس نے پانى پى ليا.

كبشہ بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے مجھے ديكھا كہ ميں ان كى طرف ديكھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے:

ميرى بھتيجى كيا تم تعجب كر رہى ہو ؟

تو ميں نے جواب ديا: جى ہاں.

تو وہ كہنے لگے: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" يہ نجس اور پليد نہيں، بلكہ يہ تو تم پر گھومنے پھرنے والياں ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 68 ).

ان دونوں روايتوں كو امام بخارى اور دار قطنى وغيرہ نے صحيح كہا ہے.

ديكھيں: التلخيص ابن حجر ( 1 / 15 ).

قولہ: " تم پر آنے جانے اور گھومنے پھرنے والياں ہيں "

اس كا معنى يہ ہے كہ يہ خادموں كے مشابہ ہيں، جو تمہارى خدمت كرتے ہيں، اور وہ لوگوں كے ساتھ ہى ان كے گھروں ميں رہتے ہيں، اور ان كے برتنوں اور سامان كے پاس ہوتے ہيں، اس سے ان كا بچنا ممكن نہيں.

اس ليے جب كوئى بلى كسى برتن سے پى جائے، يا كچھ كھا جائے تو وہ نجس اور پليد نہيں ہو جاتا، اس كے مالك كو اختيار ہے كہ اگر اس كا دل چاہے اور اسے ضرورت ہو تو وہ اسے كھا اور پى سكتا ہے، كيونكہ وہ پاك اور طاہر ہے، ليكن اگر اس كا ضرر اور نقصان ثابت ہو جائے تو پھر نہيں، اور اگر اس كا دل نہ چاہے تو وہ اسے نہ كھائے اور پيئے اور چھوڑ دے.

ليكن يہاں ايك چيز كى تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ بعض لوگ بليوں كا بہت زيادہ خيال ركھتے ہيں، اور انہيں خوبصورت بنانے ميں مبالغہ كرتے ہيں، اور ان پر بہت زيادہ مال خرچ كرتے ہيں جو كہ عقل كى كمزورى اور ضعف، اور رقت دين، اور آسائش ميں مبالغہ پر دلالت كرتا ہے.

حالانكہ زمين كے مشرق و مغرب ميں لاكھوں مسلمان ضرورتمند اور محتاج پائے جاتے ہيں، ہم مسلمانوں كے ليے تو بہت اونچے مقاصد ہيں جو ہمارا وقت ليں، اور اسے نفع مند كام سے بھر ديں، اور اس فضول اور بے فائدہ كام سے دور رہيں جو يورپ اور كفار سے ہمارے اندر سرايت كر گيا ہے جو كہ كتے اور بليوں پر اپنى اولاد سے بھى زيادہ خرچ كرتے ہيں، چہ جائيكہ وہ كسى محتاج اور ضرورتمند پر خرچ كريں.

بلكہ وہ تو اسے كسى فائيوسٹار ہوٹل ميں ركھتے، اور لمبا چوڑا مال ان كو وراثت ميں ديتے ہيں، الحمد للہ اللہ كا شكر ہے جس نے ہميں اسلام سے نوازا اور عزت وتكريم دى، اور ہميں باقى سارى امتوں پر امتياز عطا فرمايا.

اسى طرح اس پر بھى متنبہ رہنا چاہيے كہ شريعت اسلاميہ ميں بليوں كى خريد و فروخت منع ہے.

صحيح مسلم ميں ابو زبير رحمہ اللہ سے حديث مروى ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى كى قيمت كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2933 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 7004 ) اور ( 10207 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد