الحمد للہ.
فرمان باری تعالی ہے:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو [تو یہ معاف ہے] مگر جس نے کھلے دل سے کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل: 106]
اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں کے موقف کو غلط قرار دیتی ہے؛ کیونکہ اس آیت کی رو سے جس نے بھی کلمہ کفر کہا اسے وعیدی کافروں میں شمار کیا گیا ہے، ماسوائے ایسے شخص کے جسے مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔
اگر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: اللہ تعالی نے تو یہ فرما دیا ہے کہ:
وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا [یعنی جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کیا تو وہ کافر ہے] تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: آیت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کے عین مطابق ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص جبر کے بغیر ہی کفر کرے تو اس نے کھلے دل سے کفر کا ارتکاب کیا۔ [اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے تو] وگرنہ آیت کا اول اور آخری حصہ آپس میں متضاد ہو جائیں گے۔ اگر یہاں کفر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہو جو بلا اکراہ شرح صدر کے ساتھ کھلے دل سے کفر کرے تو محض مجبور شخص کو مستثنی نہیں کیا جائے گا، بلکہ پھر عدم شرح صدر کی صورت میں مجبور اور غیر مجبور دونوں کو لازمی طور پر مستثنی قرار دینا ضروری ہو گا۔ تاہم اگر اپنی مرضی سے کوئی شخص کلمۂ کفر کہتا ہے تو یہ کھلے دل سے کفریہ کلمہ کہنا ہے جو کہ کفر ہے۔
اس بات کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:
يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ
ترجمہ: منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے۔ [64] اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں [65] تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے [التوبۃ: 64 - 66]
تو یہاں اللہ تعالی نے بتلا دیا کہ ان منافقین نے ایمان لانے کے بعد اپنی کہی ہوئی باتوں کی وجہ سے کفر کر لیا ؛ حالانکہ منافقین کا کہنا تھا کہ: "ہم نے کفریہ باتیں کفر کا نظریہ رکھے بغیر کہی ہیں، ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔" اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ تعالی کی آیات سے مذاق کرنا بھی کفر ہے؛ [کیونکہ] کفر کا حکم اسی پر لگے گا جو کفریہ بات کو شرح صدر کے ساتھ کہے، اگر منافق کے دل میں ایمان ہوتا تو اس کا ایمان اسے ایسی بات کرنے سے لازمی روکتا۔"
ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 7 / 220 ) ، مزید دیکھیں: "الصارم المسلول" صفحہ نمبر: (524)
لہذا جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنی مکمل مرضی سے واضح طور پر کفر کرے تو وہ کافر ہو جائے گا، چاہے اس کا یہ کفر دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے ہو، اس دنیا کی خاطر ہی لوگوں سے کفریہ عمل زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس سے ایسے شخص کو مستثنی قرار دیا جائے گا جسے واقعی مجبور کیا گیا ہو اس کے لئے مجبور کرنے کی شرائط کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔
جیسے کہ امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر اتنا مجبور کیا جائے کے اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے اور وہ اس طرح کفر کرے کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ " ختم شد
ماخوذ از: " الجامع لأحكام القرآن " ( 12 / 435 )
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر اور زبردستی کی حد کیا ہے؟
تو جبر کی حد بندی کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، تاہم سب کے سب اجمالی طور پر اس چیز میں مشترک ہیں کہ انسان کو حقیقی معنوں میں قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، یا عورت کو زنا کی دھمکی ملے یا مرد کو لواطت کی یا اس طرح کی سنگین قسم کی دھمکی دی جائے۔
جیسے کہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ( 6 / 101 – 102 ) میں جبر اور زبردستی واقع ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، چاہے اس میں عضو باقی رہے لیکن اس کی کارکردگی جاتی رہے مثلاً: بینائی سلب کر لی جائے، یا ہاتھ سے پکڑنے اور پاؤں سے چلنے کی صلاحیت باقی نہ رہے لیکن ہاتھ اور پاؤں باقی رہیں، یا کوئی ایسا نقصان کرنے کی دھمکی ملے جس کا غم دائمی ہو ، مثلاً: عورت کو زنا کی دھمکی دینا اور مرد کو لواطت کی دھمکی دینا۔
جبکہ بھوکے رکھنے کی دھمکی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، شرعی طور پر جبر اور زبردستی اسی وقت متصور ہو گی جب بھوک انسان کو مرنے کے قریب کر دے۔۔۔" ختم شد
جبکہ اپنی مالی حالت اچھی کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ کفر کرنا تو بالکل بھی جبر اور زبردستی میں شامل نہیں ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے [حنبلی] مذہب میں غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ زبردستی اور جبر کی نوعیت مجبور شخص کے اعتبار سے الگ الگ ہوتی ہے؛ لہذا کلمہ کفر کرنے کے لئے کیے جانے والے معتبر جبر کا حکم وہ نہیں ہے جو تحفہ دینے یا کسی ایسے ہی کام پر کیے جانے والے جبر کا ہے۔ امام احمد نے کئی جگہوں پر صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ کفر کرنے کے لئے کیا جانے والا معتبر جبر مارنے یا قیدی کرنے جیسی سخت سزا سے ہی ہو گا، محض زبانی باتوں سے معتبر جبر واقع نہیں ہوتا" ختم شد
ماخوذ از: " المستدرك على مجموع الفتاوى" (5/8) ، اسی طرح دیکھیں: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 372 – 373 )
معتبر جبر کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: مجبور آدمی جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے اور نکلنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، چنانچہ اگر اس کے اندر جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے کی صلاحیت تھی لیکن وہ نہیں بھاگا، بلکہ وہیں پر ٹکا رہا حتی کہ اسے مجبور ہو کر کفریہ عمل کرنا پڑا تو وہ شرعی طور پر مجبور آدمی نہیں ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو اس آدمی کا کیا حکم ہو گا جو بہ ذات خود ایسی جگہ پر جا رہا ہے جہاں اسے اپنے دین کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے گا؟!
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (97) إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا (98) فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا
ترجمہ: جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔ [97] مگر جو مرد، عورتیں اور بچے فی الواقع کمزور اور بے بس ہیں اور وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے[98] امید ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے کیونکہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے [النساء: 97 - 99]
اس آیت کی تفسیر میں شیخ سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر: صفحہ: 195 میں کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت وعید آئی جو ہجرت کی قدرت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتا اور دارالکفر ہی میں مر جاتا ہے۔ کیونکہ جب فرشتے اس کی روح قبض کریں گے تو اس کو سخت زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گےفِيمَ كُنْتُمْ یعنی: تم کس حال میں تھے ؟ [النساء: 97] اور کیسے تم نے اپنے تشخص کو مشرکین کے درمیان ممتاز رکھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ان کی تعداد میں اضافے کا باعث بنے اور بسا اوقات اہل ایمان کے خلاف تم نے کفار کی مدد کی، تم خیر کثیر، اللہ کے رسول کی معیت میں جہاد، مسلمانوں کی رفاقت اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی معاونت کی سعادت سے محروم رہے۔
قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ
وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے [النساء: 97]وہ کہیں گے کہ ہم کمزور، مجبور اور مظلوم تھے اور ہجرت کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ اپنے اس قول میں سچے نہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے اور ان کو وعید سنائی ہے اور اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔ اللہ تعالی نے حقیقی مستضعفین یعنی کمزور لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس لئے فرشتے ان سے کہیں گے :
أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا
کیا اللہ کی زمین وسیع و فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے !؟[النساء: 97] یہ استفہام تقریری ہے یعنی ہر ایک کے ہاں یہ چیز مسلّم ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بندہ مومن جہاں کہیں بھی ہو اگر وہاں اپنے دین کا اظہار نہیں کر سکتا تو زمین اس کے لئے بہت وسیع ہے جہاں وہ اللہ تعالی کی عبادت کر سکتا ہے۔" ختم شد
تو اس شخص کو چاہیے کہ اس سنگین نوعیت کے جرم سے توبہ کرے، اور اس قسم کے تمام اقدامات سے باز آ جائے۔
اور آپ اسے یہ بتلائیں کہ اللہ کی نعمتیں اللہ کی نافرمانی اور کفر کر کے حاصل نہیں ہوتیں، بلکہ ہمہ قسم کی نعمتیں تقوی الہی اپنانے سے حاصل ہوتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ [2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ بلاشبہ اللہ نے ہر چیز کا ایک تخمینہ لگا رکھا ہے۔ [الطلاق: 2، 3]
اس آیت کی تفسیر میں شیخ سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر: صفحہ: 1026میں کہتے ہیں:
" پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اور اپنی ہر حالت میں اس کی رضا کو مقدم رکھتا ہے تو اللہ دنیا و آخرت میں اسے ثواب سے بہرہ مند کرتا ہے ، نیز اس کے مجموعی ثواب میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی ہر قسم کی سختی اور مشقت میں سے اس کے لیے فراخی اور نجات کا راستہ پیدا کرتا ہے جیسے کہ کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے فراخی اور نجات کی راہ نکال دیتا ہے اور جو کوئی اس سے نہیں ڈرتا وہ بوجھ تلے اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا رہتا ہے جن سے گلو خلاصی اور ان کے ضرر سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ "
ماخوذ از: " تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان " ( ص 1026 )
تو یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ خوش حال زندگی کا راستہ یہ نہیں ہے کہ مال و دولت بہت زیادہ ہو! بلکہ تقوی، اللہ تعالی پر توکل اور اس بات کی معرفت خوش حال زندگی کا باعث بنتی ہے کہ انسان کو یقین ہو کہ جو رزق اس کے لئے لکھ دیا گیا ہے اسے حاصل کیے بغیر موت آ ہی نہیں سکتی۔
جیسے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! اللہ سے ڈرو اور احسن طریقے سے روزی تلاش کرو؛ کیونکہ کوئی انسان اپنا رزق پورا کیے بغیر نہیں مرے گا اگرچہ حصولِ رزق میں تاخیر ہو جائے۔ چنانچہ اللہ سے ڈرو اور احسن طریقے سے روزی طلب کرو۔ جو حلال ہے، وہ لے لو اور جو حرام ہے، وہ چھوڑ دو) اس حدیث کو ابن ماجہ: (2144) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے صحیح سنن ابن ماجہ : (2/207) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
مرتد شخص کی بیوی جس کے ساتھ ہم بستری مرتد ہونے سے پہلے کر چکا ہو اس کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:
پہلی حالت: مرتد شخص اپنی بیوی کی عدت کے دوران ہی تائب ہو جائے، تو ایسی صورت میں وہ نیا نکاح کیے بغیر آپس میں رجوع کر سکتے ہیں، اس موقف کو متعدد اہل علم نے راجح قرار دیا ہے۔
چنانچہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دین اسلام کو گالی دینے سے مسلمان مرتد ہو جاتا ہے، اسی طرح قرآن کو گالی دینا، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دینے سے بھی انسان مرتد ہو جاتا ہے، یہ -نعوذ باللہ-ایمان کے بعد کفر ہے، تاہم کفر طلاق نہیں ہے، مرتد ہونے والے شخص کو اس کی بیوی سے طلاق کے بغیر ہی جدا کر دیا جائے گا ، اس لیے ان میں طلاق نہیں ہو گی، بلکہ بیوی مرتد کے لئے اس لیے حرام ہو جائے گی کہ عورت مسلمان ہے اور وہ مرتد ہو کر کافر ہو چکا ہے، مسلمان عورت اس کے لئے اس وقت تک حرام ہے جب تک وہ توبہ نہیں کر لیتا، چنانچہ اگر وہ توبہ کر لے اور بیوی کی عدت ابھی باقی ہو تو بغیر کچھ کیے رجوع کر سکتا ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ اگر مرتد تائب ہو جائے تو اس کی بیوی اس کے عقد میں لوٹ آئے گی" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب" از ابن باز ( ص 140) -طیار ایڈیشن-
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص -نعوذ باللہ- مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا، لیکن اگر وہ عدت مکمل ہونے سے پہلے توبہ کر لے اور اسلام میں دوبارہ داخل ہو جائے تو اس کا نکاح ابھی باقی ہے۔۔۔"ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " از ابن عثیمین ( 19 / 2) مکتبہ شاملہ کی ترقیم کے مطابق
دوسری حالت:
اگر مرتد شخص عدت ختم ہونے کے بعد تائب ہو تو جمہور علمائے کرام کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع نہیں کر سکتا، البتہ نیا نکاح کر کے اسے دوبارہ اپنے عقد میں لا سکتا ہے۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے اور پھر اپنی بیوی کی عدت گزر جانے کے بعد ہی واپس اسلام میں داخل ہو تو ائمہ اربعہ کے ہاں اس کی بیوی بائنہ ہو جائے گی۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 32 / 190 )
اسی طرح شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مرتد شخص عدت گزرنے کے بعد تائب ہو اور وہ اپنی بیوی سے نیا نکاح کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نیا نکاح علمائے کرام کے اختلاف سے بچنے کے لئے زیادہ محتاط طریقہ کار ہو گا، ویسے تو کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ نیا نکاح کیے بغیر ہی دوبارہ اسلام میں داخل ہونے والے شخص کے لئے بیوی حلال ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بیوی اسے پسند کرے اور عدت گزرنے کے بعد آگے کسی سے شادی بھی نہ کی ہو، وہ ابھی تنہا ہی ہو۔ لیکن نیا نکاح کرنے سے انسان جمہور اہل علم کے موقف سے تصادم سے بچ جائے گا؛ اس لیے کہ اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب عورت کی عدت ختم ہوئی تو عورت اس سے مکمل طور پر الگ ہو گئی، اور وہ عورت اس کے لئے مکمل طور پر اجنبی ہے، اب وہ نیا نکاح کیے بغیر اس کے لئے حلال ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن اگر عدت کے دوران توبہ کر لے تو وہ ابھی اس کی بیوی ہی ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں کا نکاح باقی رکھا جو اپنی بیویوں سے بعد میں لیکن ان کی عدت ختم ہونے سے پہلے اسلام لائے تھے" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب" از ابن باز ( ص 140) -طیار ایڈیشن-