جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا بندگی کی وجہ سے تخلیق انسان اور آزمائش کی وجہ سے تخلیق کے مابین تعارض ہے؟

سوال

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے ہمیں صرف اپنی بندگی کیلیے پیدا کیا ہے، لیکن اسی طرح قرآن مجید میں یہ بھی متعدد جگہوں پر مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں آزمانے کیلیے پیدا کیا ہے، تو کیا یہ تضاد نہیں ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بندگی کیلیے تخلیق اور آزمائش کیلیے تخلیق میں کوئی تضاد نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ:

بندگی بذات خود اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کی آزمائش ہے، اسی بندگی کی وجہ سے معلوم کیا جاتا ہے کہ  کون مومن ہے اور کون کافر؟ کون نافرمانی کرتا ہے اور کون اطاعت گزار بنتا ہے، اس پر اللہ تعالی اچھے لوگوں کو جزا دے گا اور برے لوگوں کو سزا دے گا۔

آزمائش کا اس وقت علم ہوتا ہے جب حالات سخت ہوں اور مصیبتوں میں انسان گھر جائے کہ کیا انسان صبر سے کام لیتا ہے یا جزع فزع کرتا ہے، اسی طرح خوشحالی میں بھی آزمائش ہوتی ہے کہ انسان نعمتوں  کے ملنے پر شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے؟!

ہو سکتا ہے کہ سائل ایک غلط فہمی کا شکار ہونے پر یہ کہہ رہے ہوں کہ دونوں میں تصادم یا تضاد ہے، غلط فہمی یہ ہے کہ  انہوں نے آزمائش کو صرف مصیبت کی صورت میں سمجھا ہے، لہذا مصیبت میں جو شخص صبر کرے گا وہ ثواب پائے گا اور جو جزع فزع سے کام لیتے ہوئے نا شکری کرے گا وہ گناہ اور سزا کا مستحق ہو گا۔

آزمائش کا اگر یہی مفہوم ان کے ذہن میں ہے تو یہ جزوی مفہوم ہے مکمل نہیں ہے۔

مکمل مفہوم یہ ہے کہ یہاں آزمائش سے مراد  امتحان ہے جو کہ محض مصیبت کی صورت میں نہیں ہوتا، امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہوتا ہے، زندگی کا ہر گوشہ امتحانات سے بھر پور ہے، لہذا یہی وجہ ہے کہ زندہ رہے، بیمار ہو، صحت یاب ہو، خوشی ملے، دولت ملے، رزق ملے یہ سب امتحان ہیں  حتی کہ ارد گرد کا ماحول اور علم بھی امتحان ہے، اللہ تعالی ان سب امور میں انسان  کے چال چلن کو پرکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو کر اصحاب یمین [دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں] میں شامل ہوتا ہے یا اصحاب شمال [بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں ] میں شامل ہوتا ہے، رحمن کی اطاعت کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور
ترجمہ: وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہی غالب اور بخشنے والا ہے۔[الملك:2 ]

اسی طرح فرمایا:   وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا  
ترجمہ: اسی ذات نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے عمل کرنے والا ہے؟[هود:7]

ایک اور مقام پر فرمایا: وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُون
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ تو تمہیں دیتا ہی آزمانے کیلیے ہے، اس لیے تم بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے، جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے ہو ان کے متعلق وہی تمہیں بتلائے گا ۔[المائدة:48]

سورہ انعام میں فرمایا:    وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ 
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین کے وارث بنایا اور کچھ کو دوسروں پر فوقیت دی، تا کہ تمہیں آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں، بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا اور بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الأنعام:165]

ان تمام تر آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ امتحان ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس امتحان میں بندگی بھی شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص بندگی -اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں- بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہو گا، اور جس شخص سے بندگی میں کمی ہوئی تو اسی کمی کی مقدار کے برابر اس کا نقصان ہو گا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس جہاں کی تخلیق، موت، حیات اور زمین  پر موجودات کے ذریعے اس کی آباد کاری کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ آزمائش اور امتحان ہے تا کہ سب مخلوقات کے متعلق علم ہو کہ کون اچھے عمل کرتا ہے، کس کے اعمال اللہ تعالی کی پسندیدگی کے مطابق ہوتے ہیں، اگر عمل ایسے ہی ہوئے تو وہ اپنی تخلیق  کے ہدف کے مطابق عمل پیرا ہے، اسی ہدف کیلیے یہ جہاں پیدا کیا گیا، اور وہ ہدف یہ ہے کہ محبت و اطاعت سے سرشار اللہ کی بندگی، اسی بندگی کو ہی اچھے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہی اچھے عمل محبت و رضائے الہی کے موجب ہیں "   انتہی
" روضة المحبين " (61)

علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اس آیت   وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ   اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی بندگی کیلیے ہی پیدا کیا ہے۔[الذاريات:56]کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ کے معنی کے متعلق تحقیقی بات ان شاء اللہ یہ ہے کہ" إِلَّا لِيَعْبُدُونِ" کا معنی یہ ہے کہ میں انہیں اپنی عبادت کا ہی حکم دوں گا اور انہیں آزماؤں گا، یعنی حکم دے کر ان کا امتحان لوں گا ، پھر ان کے اعمال کے مطابق انہیں بدلے سے نوازوں گا، اگر انہوں نے اچھے عمل کئے تو بدلہ بھی اچھا ملے گا اور اگر انہوں نے برے عمل کئے تو بدلہ بھی برا ملے گا۔

ہم نے اس معنی کو تحقیقی معنی اس لیے قرار دیا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی محکم آیات اس معنی پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بہت سی آیات میں صراحت سے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تا کہ وہ ان کا امتحان لے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے، نیز اللہ تعالی نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دے۔

جیسے کہ اللہ تعالی نے سورہ کہف کی ابتدا میں فرمایا: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا بیشک جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے زمین کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون عمل میں بہتر ہے۔[الکہف: 7]

تو ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ صراحت کی ہے کہ مخلوقات کو پیدا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان کا امتحان لیا جائے کون اچھا عمل کرنے والا ہے  اور یہی "لِيَعْبُدُونِ" کا معنی ہے، ویسے بھی قرآن مجید کی سب سے بہتر تفسیر وہی ہے جو قرآن مجید خود بیان کرے۔

یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اعمال کے نتائج بھی مطلوب ہوتے ہیں، لہذا اعمال کی تکمیل اسی وقت ہو گی جب اچھے کام کرنے والوں کو جزا دی جائے اور برے لوگوں کو سزا دی جائے۔

اسی بنا پر اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ : اللہ تعالی کی  انہیں پیدا کرنے اور پھر دوبارہ جی اٹھانے کی  حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو اچھے اعمال کے بدلے میں جزا ملے اور برے لوگوں کو سزا ملے، چنانچہ سورہ یونس کی ابتدا میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
ترجمہ:  بیشک وہی پیدا کرتا ہے ،پھر  وہی دوبارہ جی اٹھائے گا تا کہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو عدل کے ساتھ بدلہ دے، جبکہ کفر کرنے والوں کیلیے کھولتا ہوا پانی ہو گا اور درد ناک عذاب ہو گا اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے رہے[یونس  :4]

اسی طرح سورہ نجم میں فرمایا: وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى
ترجمہ: اور اللہ تعالی کی [پیدا کردہ ]ہی ہے   آسمانوں اور زمین  کی سب چیزیں، تا کہ وہ بد اعمال کرنے والوں کو ان کا بدلہ دے اور اچھے عمل کرنے والوں کی اچھی جزا دے۔[النجم:  31]

نیز اللہ تعالی نے انسان کے اس گمان کو سختی سے رد فرمایا کہ  اسے فضول ہی چھوڑ دیا جائے گا ، اسے کوئی کام کرنے یا کسی کام سے رکنے کا حکم نہیں دیا جائے گا، اللہ تعالی نے واضح فرمایا کہ انسان کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے  میں پیدا ہونے تک اس لیے منتقل کیا ہے کہ  اسے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھانا ہے، اور اس کے اعمال کا اسے بدلہ دینا ہے۔

آپ فرمانِ باری تعالی  پڑھیں: أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى[36] أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى [37]

 ترجمہ: کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے فضول چھوڑ دیا جائے گا [36] کیا وہ منی کا ٹپکایا ہوا قطرہ نہیں تھا؟ [37]
سے لیکر اس آیت تک أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى[40]
ترجمہ: تو کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟[القیامہ: 36 - 40] " انتہی
" أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن " (7/ 445)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب