الحمد للہ.
نصیحت اسلامی اخوت کی امتیازی خوبی ہے، نصیحت انسان کے ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ، دوسروں کے ساتھ بھلائی کی تکمیل ہے؛ کیونکہ انسان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان اپنے لیے جو چیز پسند کرتا ہے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، اور جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ چیز اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے، یہ اصل میں خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، اور ہر مسلمان کے خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی) اس حدیث کو امام بخاری: (57) اور مسلم : (56) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم: (55) میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دین خیر خواہی کا نام ہے) ہم نے کہا: کس کے لیے خیر خواہی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کی ، اللہ تعالی کی کتاب کی، اللہ کے رسول کی، مسلم حکمران کی اور عوام الناس کی)
ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عوام الناس کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کی رہنمائی کی جائے۔" ختم شد
"النهاية " (5 /142)
نصیحت کرتے ہوئے کچھ آداب کا خیال کرنا ہر مشفق مہربان ناصح کے لیے ضروری ہے، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- نصیحت کرنے کی وجہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کا ارادہ ہو، کسی نقصان یا شر کو دور کرنا مقصد ہو، جیسے کہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: تمام مسلمانوں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اور ان کے لیے بھی وہی چیز ناپسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، مسلمانوں کے بارے میں مشفق اور مہربان رہے، چھوٹے بچوں پر شفقت کرے، بڑوں کا احترام کرے، اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو خود تکلیف محسوس کرے، اور انہیں کوئی خوشی ملے تو اس پر خوشی محسوس کرے، چاہے اس کی وجہ سے اسے دنیاوی طور پر نقصان ہو، مثلاً: چیزوں کے ریٹ کم ہو جائیں تو اب جو چیز فروخت کرے گا اس میں اسے فائدہ کم ہو گا۔ اسی طرح ہر ایسی چیز کو ناگوار سمجھے جو مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ ہو، اور ہر ایسی چیز کو اچھا سمجھے جو مسلمانوں کے لیے مفید ہو، اسے اچھا لگے کہ سب مسلمان ہمیشہ نعمتوں میں رہیں، ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب رہیں، اور ہمہ قسم کی اذیت اور پریشانی سے دور رہیں، چنانچہ ابو عمرو ابن الصلاح کہتے ہیں: خیر خواہی اور نصیحت ایک جامع ترین لفظ ہے اس میں خیر خواہ شخص عملی اور ارادی طور پر دوسروں کے لیے ہمہ قسم کی بھلائی چاہتا ہے۔" ختم شد
"جامع العلوم والحكم" (ص 80)
-مخلص ہو کر نصیحت کرے، نصیحت کا مقصد رضائے الہی ہو، نصیحت اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز اور بلند دکھانے کے لیے نہ ہو۔
-نصیحت میں کسی قسم کا دھوکا اور خیانت نہ ہو؛ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نصیحت سر تا پا اخلاص سے مزین ہوتی ہے اس میں کسی قسم کا دھوکا یا خیانت نہیں ہوتی، کیونکہ مسلمان کی اپنے بھائی کے ساتھ دوستی اور محبت اس معیار کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے کسی بھی قسم کی خیر کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑتا، اور اپنی نصیحت میں کسی قسم کا منفی شک و شبہ نہیں آنے دیتا، یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ جب سونے کے خالص پن کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو { ذَهَبٌ ناصح } کہتے ہیں یعنی ہر قسم کی ملاوٹ اور کھوٹ سے پاک سونا، اسی طرح {عسل ناصح } یعنی ملاوٹ اور موم سے پاک شہد۔ تو نصیحت بھی اسی طرح ہر قسم کی کھوٹ اور ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (5/ 90)
-نصیحت کا مقصد کسی کو عار دلانا نہ ہو، نہ ہی کسی کو دیوار سے لگانا مقصود ہو، حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کا اس حوالے سے ایک رسالہ ہے جس میں انہوں نے نصیحت اور عار دلانے میں فرق بیان کیا ہے۔
-نصیحت میں اخوت اور محبت بھری ہوئی ہو، اس میں کسی قسم کی ڈانٹ اور سختی نہ ہو، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے انداز سے نصیحت کے ذریعے دعوت دو، اور ان سے مناظرہ کرو تو بہترین طریقے سے ۔[النحل: 125]
-نصیحت کی بنیاد علم، دلیل اور وضاحت پر ہونی چاہیے، علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حکمت میں یہ چیز شامل ہے کہ: علم کی بنیاد پر کسی کو دعوت دی جائے لاعلمی کی بنیاد پر نہیں، نیز آغاز اہم ترین امور سے کیا جائے، اور ایسے موضوع کا انتخاب کیا جائے جسے سمجھنا سامع کے لیے آسان ہو، اور تسلیم کرنا بھی ممکن ہو، انداز ایسا ہو کہ رس گھولا ہوا، چنانچہ حکمت سے آپ کی بات مان لے تو بہت اچھا ہے، وگرنہ پھر اچھے طریقے سے نصیحت کی طرف منتقل ہو یعنی رغبت دلاتے ہوئے نیکی کا حکم دے، اور عذاب سے ڈراتے ہوئے برائی سے روکے۔ اور اگر مخاطب یہ سمجھے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہی حق ہے یا دوسروں کو بھی اپنے فہم کی دعوت دیتا ہے تو پھر معاملہ مناظرے کی طرف چلا جائے گا کہ اس سے بہترین انداز میں مناظرہ کرے۔ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں یہی وہ طریقے ہیں جس سے ممکن ہے کہ مخاطب آپ کی بات پر قائل ہو جائے، اسی بہترین مناظرے میں یہ بھی شامل ہے کہ جن دلائل کو وہ اپنے دلائل سمجھ رہا ہے انہی کو اس کے خلاف استعمال کیا جائے؛ کیونکہ اس سے ہدف تک پہنچنا مزید آسان ہو جائے گا۔ مناظرے کی وجہ سے باہمی گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک نوبت نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ اس سے تو سارا مقصود ہی ختم ہو جائے گا، نیز مناظرے کا مقصد یہ نہ ہو کہ اپنی جیت اور برتری ثابت کرنی ہے بلکہ مقصد یہ ہو کہ مخلوق کو مکمل ہدایت پہنچ جائے۔" ختم شد
" تفسیر سعدی" (ص 452)
-نصیحت تنہائی میں کریں، لوگوں کے سامنے علی الاعلان نہ ہو، البتہ اگر اس میں کوئی واقعی مثبت پہلو ہو تو علی الاعلان بھی کر سکتا ہے، چنانچہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین جب کسی کو نصیحت کرنا چاہتے تھے تو اسے تنہائی میں نصیحت کرتے تھے، حتی کہ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے تو یہ واقعی نصیحت ہے، اور اگر لوگوں کے سامنے اعلانیہ کرتا ہے تو یہ نصیحت نہیں فضیحت ہے۔ فضیل ؒ کہا کرتے تھے: مومن پردہ پوشی کے ساتھ نصیحت کرتا ہے جبکہ فاجر شخص پردے فاش کر کے عار دلاتا ہے۔" ختم شد
"جامع العلوم والحكم" (1/ 236)
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تم نصیحت کرنے لگو تو تنہائی میں کرو، سب کے سامنے نہیں، اسی طرح اشارے کنایے میں بات کرو، صریح لفظوں میں نہیں، ہاں اگر مخاطب آپ کے اشارے کنایے سمجھنے سے قاصر ہو تو پھر صریح لفظوں میں گفتگو کرنا لازمی ہے۔۔۔ اگر آپ ان باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے تو آپ خیر خواہ نہیں بلکہ ظالم ہیں!" ختم شد
"الأخلاق والسير" (ص 45)
لیکن اگر نصیحت کنندہ کو اعلانیہ نصیحت کرنے میں کوئی حقیقی فائدہ نظر آ رہا ہو تو اعلانیہ نصیحت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: ایک شخص سب لوگوں کے سامنے اعلانیہ عقیدے کے مسائل میں غلطیاں کر رہا ہے تو اس کا رد بھی اعلانیہ ہو گا، تا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی بات تسلیم کر لیں اور غلط راستے پر چل پڑیں۔ اسی طرح اگر کوئی سودی لین دین کو حلال کہہ رہا ہے ، یا کسی بدعت یا گناہ کے کام کو لوگوں میں پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کو اعلانیہ نصیحت کرنا شرعی عمل ہے، بلکہ ممکن ہے کہ اعلانیہ نصیحت کرنا ہی واجب ہو؛ کیونکہ یہاں پھیلتی ہوئی برائی کو روکنے کے لیے یہی راجح مصلحت ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مقصد صرف حق واضح کرنا ہے، اور لوگوں کے لیے غلط موقف رکھنے والے کی غلطی واضح کرنا ہے تو یقیناً ایسا شخص اپنے مقصد اور ارادے میں اجر کا مستحق ہے، ایسا شخص اپنے اس عمل سے اللہ، اللہ کے رسول، مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کی خیر خواہی کر رہا ہے۔" ختم شد
"الفرق بين النصيحة والتعيير" (ص 7)
- نصیحت کرتے ہوئے الفاظ چناؤ بہترین ہو، مخاطب کے ساتھ نرمی والا برتاؤ رکھے، اور گفتگو اچھے انداز سے کرے۔
-نصیحت کرنے کے بعد اگر ناصح کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کا اظہار کرے۔
-مسلمان کے راز چھپائے، اور پردہ پوشی سے کام لے، اور اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے، کیونکہ مشفق اور نرم دل ناصح ہمیشہ دوسروں کی خیر چاہتا ہے اور پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے۔
-نصیحت کرنے سے پہلے مکمل تحقیق اور چھان بین کر لے، محض گمان کی بنیاد پر کچھ نہ کرے، تا کہ اپنے بھائی کے متعلق ایسی بات نہ کر دے جو اس میں نہیں تھی۔
-نصیحت کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرے، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "دلوں میں کبھی کبھار چاہت اور توجہ ہوتی ہے تو کبھی سستی اور بے رخی ہوتی ہے، لہذا جب دل میں چاہت اور توجہ ہو تو دلوں کو موہنے کی کوشش کرو، اور جب ان میں سستی اور بے رخی پائی جائے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ " ختم شد
ابن مبارک رحمہ اللہ نے اسے "الزهد" (1331) میں بیان کیا ہے۔
- نصیحت کنندہ بذات خود بھی با عمل ہو، یعنی لوگوں کو جس کام کا حکم دے وہ خود بھی کرے اور جس کام سے لوگوں کو روکے اس سے خود بھی باز رہے، چنانچہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کی کردار اور گفتار کے تضاد کی وجہ سے ڈانٹ پلائی اور فرمایا:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
ترجمہ: کیا تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے بھی ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے؟[البقرۃ: 44]
شریعت میں ایسے شخص کے متعلق سخت وعید ہے جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، اسی طرح لوگوں کو برائی سے تو روکتا ہے لیکن خود نہیں رکتا۔
واللہ اعلم