الحمد للہ.
جب آپ کے خاوند نے آپکو گاڑی بطور ِ حق مہر دے دی، اور آپ نے ان سے
گاڑی وصول بھی کر لی تو یہ آپکی ملکیت بن گئی، لہذا وہ آپکی اجازت کے بغیر واپس
نہیں لے سکتے، اللہ تعالی نے خاوندوں کو اپنی بیویوں سے حق مہر واپس لینے سے منع
فرمایا ہے، صرف اس صورت میں جائز ہے کہ بیویاں خود سے حق مہر واپس کریں، اللہ تعالی
کا فرمان ہے:
(وَآتُوا
النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ
نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا
)
ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ
مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو ۔ [النساء: 4]
اسی طرح فرمایا :
(وَإِنْ
أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ
قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا
مُبِينًا)
ترجمہ: اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر
سارا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ، کیا تم اس پر بہتان رکھ کر
اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو؟ [النساء: 20]
تاہم اگر آپکا خاوند اس سودی معاملے کو ختم کرنے کیلئے گاڑی کو فروخت کرنا چاہتا ہو، تا کہ سودی اقساط وقت سے پہلے ہی ادا کردے، اور پھر جائز طریقے سے کوئی اور گاڑی خریدے، تو اس بارے میں آپکو یہی نصیحت کرینگے کہ آپ انکی اس معاملے میں مدد کریں، اور اللہ تعالی سے اس تعاون پر ثواب کی امید بھی رکھیں، آپ کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ اپنے خاوند کو سودی معاملے سے توبہ کرنے کیلئے مدد فراہم ہو، اللہ تعالی نے ہر چیز پر احسان لازمی قرار دیا ہے، اور آپکے حسن تعاون کا سب سے زیادہ حقدار آپکا خاوند ہی ہے۔
واللہ اعلم.