الحمد للہ.
اول:
فقہائے کرام کے ہاں زمین میں موجود قیمتی چیزوں کو معدنیات میں شمار کیا جاتا ہے، اورا نہیں عربی میں "معادن" اس لئےکہتے ہیں کہ یہ زمین میں کافی عرصہ تک باقی رہتی ہیں ۔
ابن فارس کہتے ہیں:
"معدن" کو معدن اس لیے کہتے ہیں کہ ایک محاورہ ہے: "
عَدَنَ بالمكانِ
" جو اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز کسی جگہ پر کافی عرصہ رہے۔
انتہی
ماخوذ از: "حلية الفقهاء" (ص: 106)
فقہائے کرام کے ہاں معدنیات کا مفہوم معاصر مفہوم سے کچھ مختلف ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام کے ہاں معدنی اشیاء ضروری نہیں ہے کہ عصر حاضر میں بھی معدنیات ہی ہوں۔
معدنیات بہت سی چیزیں ہیں مثلاً:
سونا، چاندی، جواہرات، ہیرے، عقیق، سرمہ، گندھک، تارکول، پارہ، یاقوت، زبرجد، سنگ
مرمر، پٹرول، اور یورینیم ۔۔۔وغیرہ
شیخ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ:
"معدنیات کی تعداد بہت زیادہ ہے، ابن الجوزی نے موجودہ معدنیات کے انکشاف ہونے سے
بھی پہلے ان کی تعداد سات سو بتلائی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جہان تو ختم ہو
جائے لیکن اس زمین میں موجود مفید معدنیات کے بارے میں مکمل کھوج لگنا ابھی باقی
ہو" انتہی
" فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم" (8/252)
ابن قدامہ المقدسی نے معدنیات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"ہر وہ قیمتی چیز جو زمین سے نکالی جائے اور زمین میں ہی کسی دوسری چیز سے پیدا
شدہ ہو" انتہی
"المغنی" (3/ 53)
"
زمین سے نکالی جائے " کہہ کر زمین کی سطح پر موجود چیزوں سے احتراز کیا گیا ہے،
اسی طرح سمندر سے نکالی جانے والی اشیاء بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔
" پیدا شدہ ہو " کہہ کر لوگوں کی طرف سے رکھی ہوئی اشیاء کو خارج کیا ہے۔
" دوسری چیز " کہہ کر مٹی سے احتراز کیا ہے کہ وہ زمین کا ہی حصہ ہوتی ہے۔
" قیمتی " کہہ کر ایسی چیزوں کو خارج کیا ہے جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، کیونکہ
یہاں ایسی چیزیں مقصود ہی نہیں ہیں۔
ابن قدامہ نے معدنیات کی متعدد مثالیں بھی دی ہیں: مثلاً: سونا، چاندی، قلعی،
لوہا، یاقوت، زبرجد، عقیق، سرمہ اور دیگر ایسی اشیا جن پر معدنیات کا اطلاق ہو سکتا
ہے۔
ابن قدامہ کہتے ہیں کہ:
"معدنیات میں گندھک، پٹرول اور سلفر وغیرہ بھی شامل ہیں "
"المغنی" (4/239)
قونوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معدنیات اللہ کی زمین کے اندر پیدا شدہ چیزیں ہیں جبکہ "کنز" یعنی: خزانہ لوگوں
نے زمین کے اندر دفن کیا ہوتا ہے۔" انتہی
"أنيس الفقهاء" (ص: 46)
اس بنا پر نمک بھی فقہائے کرام کی اصطلاح کے مطابق معدنیات میں شامل ہے،چنانچہ
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نمک بھی معدنیات میں شامل ہے" انتہی
"جامع العلوم والحكم " (2/223)
مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے [شافعی] فقہاء نے معدنیات میں نمک کا ذکر بھی کیا ہے" انتہی
"الإنصاف" (3/120)
دوم:
جن معدنیات میں زکاۃ واجب ہے علمائے کرام کا ان کے بارے میں اختلاف ہے:
چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"زکاۃ ایسی معدنیات پر واجب ہے جنہیں گرم کر کے تبدیل کیا جا سکتا ہے، یعنی انہیں
کوٹ کر مختلف شکلوں میں ڈھالا جا سکتا ہو، اور ان سے چادر، سلاخیں اور زیور وغیرہ
بنایا جا سکتا ہے۔
جبکہ مائع معدنیات جیسے کہ خام تیل اور تارکول یا ٹھوس معدنیات جنہیں کوئی شکل
نہیں دی جا سکتی جیسے کہ چونا، سرمہ، اور نمک ہے تو ان میں زکاۃ نہیں ہے۔
فقہائے کرام نے یہ بات سونے اور چاندی پر قیاس کرتے ہوئے کہی ہے، چونکہ سونے
چاندی پر زکاۃ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے، اس لئے دیگر معدنیات کو انہی دونوں
پر قیاس کیا گیا ہے۔
حنبلی فقہائے کرام تمام معدنیات میں زکاۃ واجب ہونے کے قائل ہیں، چاہے لوہا،
قلعی، پیتل کی شکل میں ٹھوس ہوں یا خام تیل ، گندھک وغیرہ کی شکل میں مائع ہوں۔
کیونکہ ٹھوس اور مائع معدنیات میں کوئی فرق نہیں ہے، ان کی شکل تبدیل کرنا ممکن
ہے یا نہیں اس سے بھی معدنیات میں فرق نہیں ڈالا جا سکتا ہے، اس لیے کہ سب کی سب
معدنیات لوگوں کے ہاں قیمت رکھتی ہیں۔
مالکی اور شافعی فقہائے کرام زمین سے نکلنے والی سونے چاندی کے علاوہ کسی بھی معدنیات میں زکاۃ واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ ان کے ہاں سونے چاندی کے علاوہ تمام معدنیات میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
اور یہی موقف راجح لگتا ہے کیونکہ شرعی دلائل سونے چاندی کے علاوہ کسی بھی معدنیات پر زکاۃ عائد ہونے کے بارے میں خاموش ہیں، یہی وجہ ہے کہ سونے چاندی میں زکاۃ واجب ہے اور اسی پر اجماع بھی ہے، جبکہ دیگر معدنیات کے بارے میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس کی بنا پر دیگر معدنیات میں بھی زکاۃ واجب ہو۔
اسی موقف کو صنعانی اور البانی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہ ہے کہ اگر معدنیات ایسی ہے جس میں زکاۃ واجب ہو جیسے کہ سونا اور
چاندی تو ان کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور اگر ایسی معدنیات ہیں جن میں زکاۃ نہیں
ہوتی جیسے کہ پیتل، لوہا، خام تیل وغیرہ تو ان میں زکاۃ واجب نہیں ہے، بشرطیکہ
انہیں نکال کر بطورِ تجارت استعمال نہ کیا جائے، اور اگر انہیں بطورِ تجارت
استعمال کیا جائے تو سامانِ تجارت کے تحت اس پر بھی زکاۃ عائد ہوگی" انتہی
"تعليقات الشيخ ابن عثيمين على الكافي" (3/ 16) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے
مطابق۔
اور جمہور علمائے کرام کے ہاں بقدر نصاب معدنیات کے اخراج پر زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور اس کیلئے ایک سال کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے، اور نکالی ہوئی معدنیات میں سے چالیسواں حصہ یعنی 2.5٪ ادا کیا جائے گا۔
دیکھیں: " المغنی" (4/239-242)
حاصل کلام یہ ہوا کہ:
متعدد علمائے کرام کے ہاں زمین سے نکالے گئے نمک پر زکاۃ نہیں ہے، اور یہی موقف
راجح ہے۔
لیکن اگر کوئی مسلمان بطور احتیاط نمک کی زکاۃ ادا کر دے تو یقیناً یہ افضل اور محتاط عمل ہوگا، اور انسان زکاۃ کی ادائیگی سے بری الذمہ بھی ہو جائے گا۔
کیونکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ:
"احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ انسان مطلق طور پر معدنیات کی زکاۃ ادا کر دے" انتہی
" شرح بلوغ المرام" (3/85)
واللہ اعلم.