جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

وقف شدہ چیز کو بیچنا یا خریدنا جائز نہیں ہے۔

سوال

دو آدمیوں نے اپنی زیادہ تر املاک اللہ کے لئے وقف کر دی تھیں؛ لیکن جب انہیں مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑا تو وقف شدہ املاک کا کچھ حصہ فروخت کر دیا، پھر ان کی وفات کے بعد ان کے وارثوں نے ان وقف شدہ املاک کا کچھ اور حصہ بھی فروخت کر دیا۔ اب میرے والد نے ان املاک میں کچھ چیزیں وقف کنندہ کی اولاد سے خریدنے والے شخص سے خرید لیں، تو اب اس میں شرعی حکم کیا ہے؟ کیا میرے والد کو ان املاک کی خریداری کے بعد انہیں ذاتی استعمال میں لانے یا بیچنے پر گناہ ملے گا؛ حالانکہ انہوں نے تو خود یہ چیزیں خریدی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحیح بخاری: (2764) اور مسلم: (1632) میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے کھجور کے درخت صدقہ کرنے چاہے تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مشورہ طلب کیا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کھجور کے درخت صدقہ اس طرح کر دو کہ اسے فروخت نہ کیا جائے، نہ ہی تحفے میں دیے جائیں اور نہ اسے وراثت میں تقسیم کیا جائے، ہاں درختوں سے ملنے والا پھل تقسیم کر دیا جائے)

صحیح مسلم کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (کھجوروں کے درخت نہ فروخت کیے جائیں اور نہ ہی کوئی انہیں خریدے)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عبید اللہ بن عمر عن نافع کی سند سے امام دارقطنی نے اس حدیث کے یہ الفاظ زائد ذکر کیے ہیں کہ: (یہ کھجوریں جب تک زمین و آسمان رہیں گے وقف ہی رہیں گی)" ختم شد
"فتح الباری" (5/ 401)

شیخ عبد اللہ بسام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان : (اسے فروخت نہ کیا جائے، نہ ہی تحفے میں دیے جائیں اور نہ اسے وراثت میں تقسیم کیا جائے) سے وقف شدہ مال میں تصرف کا حکم کشید کیا جاتا ہے؛ کیونکہ وقف چیز کی ملکیت تبدیل کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسی تبدیلی لانا جائز ہے جس سے نقل ملکیت ناگزیر ہو جائے ، بلکہ وقف چیز ہمیشہ اپنی اصل پر باقی رہے گی، اس چیز کو وقف کنندہ کی شرائط کے مطابق ہی بغیر کسی کمی بیشی کے کام میں لایا جائے گا" ختم شد
"تيسير العلام" (ص 535)

اور صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (کھجوروں کے درخت نہ فروخت کیے جائیں اور نہ ہی کوئی انہیں خریدے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وقف چیز کو فروخت کرنا یا خریدنا دونوں ہی ناجائز عمل ہیں۔

چنانچہ ابو الحسن الماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام علمائے کرام کا متفقہ موقف ہے کہ وقف شدہ املاک کی خریداری باطل ہے۔" ختم شد
"الحاوی" (3/ 332)

دوم:

جب انسان کسی چیز کو وقف کر دے تو وہ چیز دائمی طور پر وقف ہو جاتی ہے، لہذا وقف شدہ چیز میں وقف کنندہ کو رد و بدل کرنے کا حق نہیں رہتا، اس لیے اسے نہ فروخت کیا جائے گا، نہ تحفے میں دی جائے گی اور نہ ہی اسے وراثت میں تقسیم کیا جائے گا۔

نیز وقف کنندہ اپنے وقف کرنے کے فیصلے سے رجوع بھی نہیں کر سکتا، چاہے اسے کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے قبرستان کے لئے زمین وقف کر دی، اور کئی سالوں تک اس جگہ میں کسی کو دفن نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ وہ شخص اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گیا، اب وہ یہ چاہتا ہے کہ وقف کردہ کلی یا جزوی زمین واپس لے لے؛ کیونکہ اسے زمین کی ضرورت ہے، تو کیا اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟

اس پر کمیٹی نے جواب دیا کہ:
"آپ نے جو زمین وقف کی ہے اسے کلی طور پر یا جزوی طور پر دوبارہ اپنی ملکیت میں لانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ زمین آپ کے وقف کرنے سے آپ کی ملکیت سے نکل چکی ہے اور صرف اسی کام کے لئے مختص ہو گئی ہے جس کے لئے اسے وقف کیا گیا تھا، چنانچہ اگر اس جگہ پر تدفین کی ضرورت ہو تو اچھی بات ہے وہاں تدفین کی جائے، اگر ضرورت نہیں ہے تو اسے فروخت کر کے رقم کسی اور جگہ قبرستان میں لگا دی جائے، نیز جہاں پر یہ وقف شدہ زمین موجود ہے وہاں کے قاضی کے علم میں لا کر یہ کام کیا جائے۔

آپ کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد مالی حالت پتلی ہو جانے پر وقف زمین کو دوبارہ واپس لینے کی گنجائش نہیں بن سکتی، آپ اللہ سے اجر کی امید رکھیں، اور جو زمین آپ نے اللہ کی راہ میں دی ہے اللہ تعالی اس سے بہتر زمین آپ کو عطا فرمائے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (16/ 96)

سوم:

اگر کوئی شخص وقف شدہ چیز پر قبضہ کر لے تو وہ غاصب ہے چاہے وہ خود ہی اس چیز کو وقف کرنے والا اصل مالک ہو، اس پر لازمی ہے کہ وقف شدہ چیز واپس کرے یا اگر بعینہ وہی چیز واپس کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اس کا متبادل واپس کرے، یہی حکم ایسے شخص کے لئے بھی ہے جس تک وقف شدہ چیز بیع، کرایہ، تحفہ یا وراثت جیسی کسی بھی صورت میں آ جائے۔

جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (10323) میں ذکر کر آئے ہیں کہ کوئی غصب شدہ چیز غاصب سے آگے جتنے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی گزرے گی وہ سب اس کے ضامن ہوں گے ، چنانچہ اگر وہ چیز ان میں سے کسی کے پاس تلف ہو جاتی ہے [تو وہ اس کے مکمل ضامن ہوں گے] مثلاً: خریدار کے پاس تلف ہو جائے یا کرایہ دار کے پاس [ہر ایک اس کا ضامن ہو گا۔]

تمام تر صورتوں میں : اگر فریق ثانی کو حقیقت حال کا علم ہو گیا کہ فریق اول در حقیقت غاصب ہے، تو ایسی صورت میں آخر کار فریق ثانی ہی ضامن ٹھہرے گا؛ کیونکہ وہ کسی کی ملکیت پر جارحیت میں ملوث ہے، لیکن اگر فریق ثانی کو حقیقت حال کا علم نہ ہوا تو پھر ضمانت فریق اول پر ہی ہو گی۔

"فتاوى كبرى" از ابن تیمیہ (5/ 418) میں ہے کہ:
"صاحب کتاب: "المحرر" کہتے ہیں کہ: اگر کوئی شخص لا علمی میں کسی غاصب سے غصب شدہ چیز لے لے تو تب بھی وہ [لا علم شخص]غصب شدہ چیز کا اور اس چیز کی کارکردگی کا ضامن ہونے میں غاصب والا حکم رکھتا ہے، ہاں اگر اسے [دھوکے وغیرہ کی وجہ سے]کوئی نقصان ہو تو صرف انہی چیزوں میں غاصب سے رجوع کرے گا جس کا وہ خود ضامن نہیں بنتا۔" ختم شد

ابن رجب رحمہ اللہ "القواعد" (ص 210) میں کہتے ہیں:
"کوئی شخص غصب شدہ چیز کسی غاصب سے اپنے قبضے میں لے اور اسے یہ علم ہی نہ ہو کہ یہ چیز غصب شدہ ہے تو حنبلی فقہائے کرام کے ہاں مشہور موقف یہی ہے کہ اس شخص کا حکم بھی غاصب والا ہی ہے، یعنی وہ بھی غاصب کی طرح اس چیز کا اور چیز سے اٹھائے جانے والے فوائد کا ضامن ہے۔" ختم شد

خلاصہ :

آپ کے والد نے وقف شدہ چیز کو خریدا ان کا یہ عمل باطل ہے، چنانچہ اس چیز کو اپنی ملکیت میں رکھنا اور اسے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ کے والد فروخت کنندہ کے پاس جا کر اپنی ادا کردہ قیمت واپس لیں گے اور وقف املاک اپنی اصلی حالت میں وقف ہی رہیں گی۔ اور وقف املاک کو واپس کرنا آپ پر شرعاً واجب ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات