الحمد للہ.
احادیث مبارکہ میں بچے کی طرف سے عقیقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور اس میں بچے کی نوعیت کو خاص نہیں کیا گیا، چنانچہ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے، جو اس بچے کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا ، اسی دن اس کے بال مونڈے جائیں گے اور اس کا نام بھی رکھا جائے گا۔)
اس حدیث کو ابو داود: (2838)، ترمذی: (1522) نے روایت کیا ہے، اور اسے البانیؒ نے سے ارواء الغلیل: ( 4 / 385 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عقیقہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی۔)
اس حدیث کو ترمذی: (1516) نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔
جبکہ زنا کی وجہ سے پیدا ہونے والا بچہ بھی ان احادیث کے عموم میں شامل ہے، اس لیے اس کی طرف سے عقیقہ کیا جائے گا۔
اور چونکہ یہ بچہ اپنی والدہ کی جانب منسوب ہو گا، اس لیے اس کی ماں ہی بچے کی طرف سے عقیقہ کرے گی۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا زانیہ والدہ کے لیے جائز ہے کہ وہ زنا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کا عقیقہ کرے، اور کیا اس بچے کا نان نفقہ اسی کے ذمہ ہو گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں، ایسی عورت کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرے، اور اگر یہ عورت صاحب حیثیت ہے تو وہی اس کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہے، لیکن اگر اس کے پاس اخراجات کی استطاعت نہیں ہے تو پھر حکومتی سطح پر قائم متعلقہ اداروں کو سپرد کیا جائے گا۔ لہذا ایسی ماں کو اپنے بچے کی اچھے سے تربیت کرنی چاہیے اور اس بچے کا بھر پور خیال کرے، اور اس کی طرف سے عقیقہ بھی کرے۔ اس بچے کی مکمل دیکھ بھال ایسی عورت پر لازم ہے، یہ عورت اپنے کیے ہوئے جرم کی اللہ تعالی سے معافی بھی مانگے، یہ بچہ اسی عورت کی طرف منسوب ہو گا۔ اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والے شخص پر لازم ہے کہ وہ بھی اللہ تعالی سے اپنے کیے کی توبہ مانگے، اس بچے کے اخراجات میں سے کچھ بھی اس پر لازم نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اس زنا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کا والد ہے، یہ شخص اللہ تعالی سے اپنے کیے کی معافی مانگے، بچہ صرف عورت کی جانب ہی منسوب ہو گا، اور وہی عورت اس کے اخراجات کی ذمہ دار ہو گی۔" ختم شد
"مجموع فتاوی شیخ ابن باز " ( 28 / 124 )
واللہ اعلم