سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نماز کے دوران اگر مسوڑھوں سے خون بہہ نکلے تو نمازی کیا کرے؟

سوال

اگر دورانِ نماز مسوڑھوں سے خون بہہ نکلے تو کیا تھوکنا لازمی ہے؟ اور کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟ کیا دورانِ نماز تھوکا جا سکتا ہے؟ کیا تھوکنےکی اجازت مسجد اور غیرِ مسجد ہر دو صورت میں نماز کے دوران جائز ہے؟ کیا مسوڑھے سے نکلنے والا خون نگلنے پر روزہ ٹوٹ جائے گا؟ کیا اس کپڑے کو دھونا ضروری ہے جس میں خون تھوکا تھا اور اس پر خون کے اثرات بھی نمایاں ہو گئےہوں؟ کیا ٹشو پیپر سے صاف کرنا کافی ہے یا پانی سے کلی ضروری ہے؟ اور اگر زمین پر تھوک دے تو کیا ٹشو سے صاف کرنا کافی ہو گا؟ اگر پانی سے کلی کرنا واجب ہو تو کیا ایک بار کلی کرنا کافی ہے یا تین بار ہی کلی کرنا ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسوڑھے سے نکلنے والے خون کو نگلنا جائز نہیں ہے، چاہے خون نماز کے دوران نکلے یا کسی اور وقت میں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر منہ سے خون جاری ہو جائے تو اسے نگلنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ)
ترجمہ: تم پر مردار اور خون حرام کر دیا گیا ہے۔ [المائدۃ: 3]" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (7/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔

تو اگر نماز میں خون جاری ہو اور اسے جان بوجھ کر اپنے اختیار سے  نگل لے : تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ نماز کے دوران کھانے پینے کے حکم میں ہو گا، لیکن اگر نمازی کے اختیار کے بغیر ہی حلق تک اتر جائے تو پھر اس کی نماز صحیح ہے۔

ایسی صورت میں اگر نماز مسجد میں ادا کر رہا ہے تو پھر ٹشو [وغیرہ ] میں تھوک لے ، مسجد میں مت تھوکے مبادا مسجد میں گندگی نہ پھیلے۔

اور اگر مسجد سے باہر نماز ادا کر رہا ہے تو پھر اپنے بائیں قدم کے نیچے یا اپنی بائیں جانب تھوک سکتا ہے، اس کے متعلق حجاوی رحمہ اللہ "زاد" صفحہ 47 میں کہتے ہیں:
"دوران نماز اپنی بائیں جانب تھوکے، اور اگر مسجد میں ہو تو اپنے کپڑے [رومال  وغیرہ] میں تھوکے" انتہی

موسوعہ فقہیہ  (40/126) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام کا یہ موقف ہے کہ مسجد کی زمین ، دیواروں اور چٹائی پر  بلغم پھینکنا  حرام ہے، بلکہ مسجد کو ہر قسم کی گندگی اور آلائش سے پاک رکھنا واجب ہے، چاہے وہ گندگی نجس نہ بھی ہو، جیسے کہ بلغم وغیرہ" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انسان مسجد میں ہو تو وہ اپنے رومال یا کپڑے میں تھوک لے، مسجد میں مت تھوکے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، لیکن اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ اس تھوک کو دفن کر دے، اس اعتبار سے ہم کہیں گے کہ: مسجد میں اپنی بائیں جانب مت تھوکیں، البتہ اپنے کپڑے میں تھوک لیں، اسی طرح مسجد میں اپنے قدم کے نیچے مت تھوکیں؛ کیونکہ مسجد میں تھوکنا غلطی ہے؛ کیونکہ اس سے مسجد میں گندگی پھیلتی ہے" انتہی مختصرا
"الشرح الممتع" (3/ 273)

دوم:

اگلی یا پچھلی شرمگاہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے نکلنے والے خون کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں راجح یہ ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس کی وضاحت ہم پہلے فتوی نمبر: (45666) کے جواب میں  بیان ہو چکی ہے۔

سوم:

مسوڑھوں سے نکلنے والے خون کو نگلنے سے روزے پر اثر ہوگا یا نہیں تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ: اگر روزے دار غیر اختیاری طور پر نگل جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے، اور اگر عمداً اپنے اختیار سے نگلے تو پھر اس کا روزہ فاسد ہو گیا ہے، چنانچہ اگر وہ روزہ رمضان کا تھا یا کوئی اور واجب روزہ تھا تو اسے اس کی قضا دینا ہو گی، اور اگر کوئی نفلی روزہ تھا تو اس کی قضا نہیں ہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (37937) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

چہارم:

ناک یا منہ سے نکلنے والا خون: اگر معمولی ہو تو یہ قابل معافی ہے، اور اگر زیادہ ہو تو یہ نجس ہے، کپڑے یا جسم پر جہاں بھی لگے اسے دھونا واجب ہے، اور اگر نماز کے دوران نکل  آئے تو اس سے نماز باطل ہو جائے گی اور اگر فرض نماز ہو تو اسے دوبارہ سے پڑھنا ہو گا۔

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر نمازی کے جسم سے خون جاری ہو جائے تو کیا نماز توڑ دے یا نہیں؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا:
"اگر نمازی کے جسم سے نکلنے والا خون اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نکل رہا ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اس حالت میں اس پر نماز توڑ کر  خون  دھونا  واجب ہے، دوبارہ سے وضو کرے اور نماز بھی شروع سے ادا کرے۔

اور اگر شرمگاہ  کے علاوہ کہیں اور سے خون  جاری ہوا ہے مثلاً: ناک ، دانت یا زخم وغیرہ سے تو ایسی صورت میں اگر وہ اپنی توجہ منقسم ہوئے بغیر نماز جاری رکھ سکے تو وہ اپنی نماز مکمل کرے؛ کیونکہ راجح موقف یہی ہے کہ خون سے وضو نہیں ٹوٹتا چاہے وہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

تاہم بہت سے اہل علم اگر خون بہت زیادہ ہو تو اسے نجس کہتے ہیں اور اسے قابل معافی نہیں سمجھتے، ایسی صورت میں  اسے نماز توڑ کر جسم پر لگنے والے خون کو  پاک صاف کرنا ہو گا اور پھر وہ واپس آ کر نیا وضو کئے بغیر  نماز پڑھے گا، یہ راجح موقف کے مطابق ہے [کیونکہ خون نکلنے کی وجہ سے اس کا وضو نہیں ٹوٹا] اور نماز دوبارہ سے شروع کرے گا۔

اور اگر معمولی خون ہو تو وہ اپنی نماز جاری رکھے گا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" انتہی
" نور على الدرب " (7/2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (163819) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اگر مسوڑھے سے معمولی خون جاری ہو  اور عام طور پر معمولی خون ہی مسوڑھوں سے نکلتا ہے، تو پھر انسان نماز کے دوران اپنے رومال میں خون تھوک لے، اور معمولی خون قابل معافی ہوتا ہے، چنانچہ رومال یا اپنے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ صفائی ستھرائی کے پیش نظر اسے دھونا مستحب ہے، نہ کہ نجاست کی وجہ سے ۔

پنجم:

نجاست کو دھونے کیلیے شریعت میں خاص عدد وارد نہیں ہے ما سوائے  کتے کی نجاست کے، کتے کی نجاست  7 بار  دھوئی جائے گی اور ان میں سے ایک بار مٹی سے دھونا ہوگا۔

جبکہ اس کے علاوہ نجاستیں دھونے کیلیے کسی معین عدد  کو شرط نہیں بنایا گیا، اتنا ضروری ہے کہ  اسے نجاست زائل ہونے تک دھونا لازمی ہے، وہ چاہے ایک بار دھونے سے ہی زائل ہو جائے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (163825 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب