سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

کیا بے پردہ خواتین کو روزے کی حالت میں دیکھنے کا کوئی مخصوص عذاب ہے؟

سوال

کیا ایسے شخص کا روزہ قبول ہو جاتا ہے جو بے پردہ خواتین پر نظریں رکھے، جن کے اعضائے جسم تنگ لباس کی وجہ سے عیاں ہوتے ہوں، میرے خاوند نے یہی حرکت کی تھی، اور جس عورت کو انہوں نے دیکھا تھا وہ بھی شرما گئی ، لیکن کیا کر سکتے تھے؟ کیونکہ ہم یہاں جرمنی میں مرد و زن کے اختلاط سے بچ نہیں سکتے، جس وقت ہم سسرالی رشتہ داروں یا کسی کو بھی ملنے جاتے ہیں تو ایسا لازمی ہوتا ہے، کیونکہ ایک تو گھر یہاں پر چھوٹے چھوٹے ہیں اور گنتی کے کمرے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بہت ہی زیادہ پریشانی ہوتی ہے، تو ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ اور مجھے بطور بیوی کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ اور کیا اس طرح کے گناہ کرنے پر آخرت میں کوئی مخصوص عذاب بھی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ یقینی بات ہے کہ خواتین کی طرف عام طور پر جبکہ بے پردہ خواتین کو خصوصی طور پر نظریں اٹھا کر دیکھنا حرام کا م ہے، جبکہ ماہ رمضان میں اس کی حرمت مزید شدید ہو جاتی ہے؛ کیونکہ فضیلت والی جگہ یا وقت میں گناہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ پہلے بھی سوال نمبر: (38213) کے جواب میں یہ گزر چکا ہے۔

نظر بے لگام چھوڑنے سے دل میں ایمان کمزور ہو جاتا ہے، روزے میں نقص اور اجر میں کمی پیدا ہوتی ہے، تاہم اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا، چنانچہ اس گناہ کے مرتکب کو چاہیے کہ جلد از جلد اس گناہ سے توبہ کر لے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خواتین کی طرف نظریں اٹھانا حرام ہے، اور اگر شہوت بھری نگاہوں سے دیکھا جائے تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ)
ترجمہ: آپ مومنوں کو کہہ دیں کہ: اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔[سورہ النور:30]

ویسے بھی بے لگام نظر برائی اور بے حیائی کے کاموں میں ملوّث ہونے کا ذریعہ بنتی ہے، اس لیے آنکھوں کی حفاظت اور فتنوں سے دور رہنا واجب ہے، لیکن جب تک منی خارج نہ ہو اس وقت تک روزہ باطل نہیں ہو گا، چنانچہ منی خارج ہوتے ہی روزہ باطل ہو جائے گا، اور اگر فرض روزے میں منی خارج ہو تو اس روزے کی قضا دینا واجب ہو گی" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (15/ 269)

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (37654) کا مطالعہ کریں۔

آپ کے خاوند کو چاہیے کہ اللہ کا خوف کھائے اور حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہے، اپنے رشتہ داروں کو اختلاط سے روکے، اس کے نقصانات اور برے نتائج ان کے سامنے رکھے۔

بیوی کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ  شریک حیات کو اللہ سے ڈرائے جب کوئی غلطی نظر آئے تو اسے نصیحت کرے۔

یہ یقینی بات ہے کہ  اللہ تعالی کے احکامات میں سستی  کرنے والا اللہ تعالی کے غضب اور عذاب کا مستحق ہو گا، جبکہ رمضان میں ایسی حرکتیں کرنے والے کو تو خصوصاً ان کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ نیکیوں اور عبادات کی بہار ضائع کر رہا ہے، اور ایسے کام کر رہا ہے جو اللہ تعالی کو کسی صورت پسند نہیں ، اس کیلیے یہی نقصان کافی ہے کہ اس نے اچھا موقع ضائع کر دیا۔

روزہ فرض کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ تقوی حاصل ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔ [البقرة:183]

لیکن ہمیں اس گناہ کیلیے کوئی خصوصی اخروی عذاب کا علم نہیں ہے، بلکہ یہ ان لغزشوں میں شامل ہے جن پر اصرار نہ کیا جائے تو نماز کی پابندی اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی صورت میں معاف ہو جائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب