الحمد للہ.
اللہ تعالی جس شخص کو قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق دے اور وہ دنیاوی مفادات کی بجائے صرف اللہ کی رضا کے لیے حفظ کرے تو ایسا شخص ان شاء اللہ ان لوگوں میں شامل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے خیر کا ارادہ فرمایا ہے۔
کیونکہ قرآن کریم تمام شرعی علوم کی بنیاد اور ان کا دروازہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا ہے اور آگے سکھاتا ہے) بخاری: (5027)
اسی طرح صحیح مسلم: (804) میں ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛ کیونکہ قرآن کریم روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔)
تاہم قرآن کو یاد کر کے اس کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ان کی مخالفت کرنے والے کو خبردار رہنا چاہیے کہ کہیں قرآن اس کے حق میں ہونے کی بجائے اس کے خلاف دلیل نہ بن جائے۔
جیسے کہ صحیح مسلم : (223) میں ہی سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قرآن کریم تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔)
اس کی شرح میں ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن تمہارے حق میں گواہی اس وقت دے گا جب آپ قرآن کے ذریعے اللہ تعالی کی جانب چلیں، اور قرآن کے حقوق ادا کریں یعنی اس کی بتلائی ہوئی خبروں کی تصدیق کریں، احکامات کی تعمیل کریں، اور منع کردہ کاموں سے رک جائیں، قرآن کریم کی تعظیم اور احترام بجا لائیں ، تو ایسی صورت میں قرآن کریم تمہارے حق میں دلیل بن جائے گا۔
اور اگر معاملہ اس کے الٹ ہوا کہ آپ قرآن کریم کی اہانت کریں، قرآن پڑھنا چھوڑ دیں اور اس پر عمل نہ کریں، قرآن کریم کے حقوق ادا نہ کریں، تو پھر قرآن کریم روزِ قیامت تمہارے خلاف گواہی دے گا۔" ختم شد
"شرح رياض الصالحين" (ص30)
واللہ اعلم