الحمد للہ.
جي ہاں جائزہے ، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالي كا كہنا ہےكہ:
( ورثاء كي رضامندي كےبغير كسي وارث كےليےايك تہائي حصہ كي وصيت كرنا صحيح نہيں ، اوراس كےوارث اوصاف كےاعتبار كےوصيت ميں داخل ہونگے ليكن بعينہ داخل نہيں ) اھ ديكھيں : الاختيارات ( 190 )
اورمعني يہ ہےكہ : وصيت عام ہے، جب وصيت اوصاف كےمطابق ہو تواس سےكسي معين شخص مقصود نہ ہو مثلااگرفقراء يا طالب علموں يا مجاھدين وغيرہ اوصاف كےليےوصيت كي توجوبھي ان اوصاف كامالك ہو وہ وصيت سےلےگا اگرچہ وہ وارث ہي ہو ، ليكن اگروصيت عام اور معين اشخاص كےليےہے مثلا اگراس نےاپنےرشتہ داروں كےليے وصيت تواس وصيت ميں وارث شامل نہيں ہونگے.
واللہ اعلم .