الحمد للہ.
اول:
امام بیہقی نے "شعب الایمان":(3852) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ماہ رمضان کے روزے مدینہ میں رکھنے کا ثواب دیگر شہروں میں رکھنے سے ایک ہزار گناہ بہتر ہے، اور نماز جمعہ مدینہ منورہ میں ادا کرنا دیگر جگہوں میں ادا کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے)
امام بیہقی اسے روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"اس کی سند سرے سے ضعیف ہے"
امام طبرانی نے اسے "الكبیر" (1144) میں بلال بن حارث سے روایت کیا ہے، اور اس کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" یہ باطل ہے اور سند اندھیر نگری ہے" انتہی
"میزان الاعتدال" (2/ 473)
اور ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے "العلل المتناهية" (2/87) میں "قاسم بن عبد اللہ عن کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف عن نافع عن ابن عمر "کی سند سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔
جبکہ قاسم بن عبد اللہ کو امام احمد اور ابن معین نے "کذاب" قرار دیا ہے۔
دیکھیں: "میزان الاعتدال" (3/371)
امام شافعی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
"جھوٹے سرغنوں میں سے ایک ہے"
دیکھیں: "میزان الاعتدال" (3/407)
نیز البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو سلسلہ ضعیفہ (831) میں نقل کر کے کہا ہے کہ:
"یہ روایت باطل ہے"
جبکہ یہ حدیث کہ: " مدینہ منورہ میں رمضان کے روزے رکھنا دیگر علاقوں میں ستر ماہ رمضان کے روزے رکھنے سے بہتر ہے " ہمیں ان الفاظ کے ساتھ کہیں نہیں ملی، تاہم اسے شیخ عطیہ سالم رحمہ اللہ نے "شرح الأربعين النووية" (79/ 5) میں نقل کرتے ہوئے کہا: "ایک ضعیف روایت جو کہ "اعذب الموارد" میں موجود ہے۔۔۔" پھر انہوں نے اسے ذکر کیا ہے۔
اسی طرح ابن ماجہ: (3117) میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو مکہ میں ماہ رمضان پائے اور وہیں پر روزے رکھے اور جتنا اس سے ہو سکے رات کو قیام کرے تو اللہ تعالی اس کیلیے مکہ کے علاوہ دیگر شہروں کے ایک لاکھ رمضانوں کا ثواب لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالی اس کے لیے ہر دن کے بدلے میں ایک غلام آزاد کرنے کا اور ہر دن کے بدلہ اللہ کے راستے میں گھوڑے پر (مجاہد کو) سوار کرنے کا ثواب لکھ دیتا ہے، اور ہر روز ایک نیکی اور ہر رات ایک نیکی لکھ دیتا ہے)
اس کے بارے میں البانی رحمہ اللہ "ضعیف ابن ماجہ " میں کہتے ہیں:
"یہ روایت من گھڑت ہے"
دوم:
پہلے سوال نمبر: (38213) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ: کسی جگہ اور وقت کی فضیلت کے باعث وہاں کی گئی نیکی یا بدی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، نیز یہ بھی گزر چکا ہے کہ نیکیوں میں ہونے والا اضافہ مقدار اور معیار دونوں انداز سے ہوتا ہے جبکہ بدی میں ہونے والا اضافہ صرف معیار یعنی کیفیت میں ہوتا ہے۔
اس لیے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں روزے رکھنے کا مقام و مرتبہ دیگر جگہوں پر روزے رکھنے سے زیادہ ہے؛ کیونکہ یہ دونوں جگہیں معزز ترین ہیں۔
لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان جگہوں میں روزہ رکھنا دیگر جگہوں میں روزہ رکھنے سے ستر ، یا ہزار یا اس سے کم و بیش گنا زیادہ ہے؛ کیونکہ کسی جگہ پر ثواب کے کم یا زیادہ ہونے کی حد بندی کرنے کیلیے صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے شرعی دلائل موجود ہیں جس میں کسی زمان یا مکان میں کیے ہوئے اعمال کی فضیلت زیادہ ہو جانے کا بیان ہے، زمان کی مثال : رمضان المبارک اور عشرہ ذو الحجہ ہے، اسی طرح مکان کی مثال حرمین شریفین ہیں، چنانچہ مکہ اور مدینہ میں نیکیوں کا اجر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: (میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد کی ہزار نمازوں سے بھی بہتر ہے، جبکہ مسجد الحرام میں ایک نماز میری اس مسجد کی ایک سو نمازوں سے بہتر ہے)اسے احمد اور ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
دیگر نیک اعمال کا ثواب بھی بڑھ جاتا ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی حد بندی بیان نہیں کی گئی، حد بندی صرف نماز کے اجر سے متعلق ہے، چنانچہ دیگر عبادات مثلاً: روزہ، ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن، صدقہ وغیرہ کے بارے میں مجھے کسی ثابت شدہ نص اور دلیل کا علم نہیں ہے جس میں ان کے ثواب کی حد بندی بھی بیان کی گئی ہو، چنانچہ اجمالی طور پر اجر و ثواب کے زیادہ ہونے کے دلائل ہیں، معین مقدار کا ذکر نہیں ملتا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (3/ 388)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی نیک کام کے اجر و ثواب کا اضافہ ایک توقیفی امر ہے، جس کیلیے دلیل چاہیے، یہاں قیاس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی دلیل مل جائے جس میں دیگر عبادات کے اجر و ثواب کی حد بندی ہو تو اس پر عمل ممکن ہے، تاہم یہ بات بھی یقینی ہے کہ کسی فضیلت والی جگہ یا وقت میں نیکی کرنے پر اس کا ثواب بڑھ جاتا ہے، جیسے کہ علمائے کرام رحمہم اللہ جمیعاً کا کہنا ہے کہ:" فضیلت والے مکان و زمان میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے، لیکن معین مقدار میں اجر زیادہ ہونے کی بات کرنے کیلیے دلیل کی چاہیے" " انتہی
"الشرح الممتع" (6/ 514)
واللہ اعلم.