جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دکاندار کیلیے رمضان میں دن کے وقت کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے کا حکم

سوال

دکان یا سپر مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں روس میں رہتا ہوں اور یہاں کے اکثر لوگ روزہ نہیں رکھتے، میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹل یا فاسٹ فوڈ کی دکان میں کھانوں کی فروخت حرام ہے؛ کیونکہ خریدار فوری طور پر اسے وہیں پر ہی کھا لیتے ہیں، میں قیمہ بھری آنتیں (ساسیج) ، روٹی یا چاول دکان میں فروخت کرتا ہوں، اور مجھے نہیں معلوم کہ خریدار اسے کب کھائے گا، تاہم مجھے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ روزہ دار نہیں ہے، لیکن اس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ مغرب کے بعد کھائے گا اور ہو سکتا ہے کہ فوری یا کچھ لمحات کے بعد ہی کھا لے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

دکان یا سپر مارکیٹ کی اشیا فروخت کے اعتبار سے دو طرح کی ہو سکتی ہیں:

پہلی قسم:

ایسے کھانے جن کے متعلق غالب گمان ہو کہ خریدار فوری طور پر اسے کھا لے گا؛ کیونکہ اس کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے  یا اسے فوری کھانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر: آئس کریم ، جوس، ٹھنڈا سوڈا واٹر، یا گرم مشروبات جنہیں خریدتے ہی تناول کر لیا جاتا ہے، اسی طرح ایسی میٹھی مصنوعات جنہیں بنانے کے فوری بعد کھا لیا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر کوئی بھی کھانے پینے کی چیزیں، تو انہیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنا مسلمان کیلیے جائز نہیں ہے؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے والا مسلمان یا غیر مسلم ماہِ رمضان کی حرمت پامال کرتے ہوئے  فوری کھا لے گا، [غیر مسلم  کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ] وہ بھی شرعی احکامات بجا لانے کے مخاطب ہیں، لہذا گناہ  کے کام میں کسی کی بھی معاونت کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر باہمی تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔[ المائدة:2]

امام رملی شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[رمضان میں ممنوعہ کاموں کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ ] کوئی عاقل بالغ مسلمان  رمضان میں دن کے وقت کسی عاقل بالغ کافر کو کھانا کھلائے، یا کسی غیر مسلم کو کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا، اسی کے مطابق والد رحمہ اللہ نے بھی فتوی دیا تھا؛ کیونکہ  ہر دو حالت میں مسلمان معصیت کا باعث بنتا ہے اور معصیت کیلیے معاونت فراہم کرتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں کو بھی شرعی فروعی مسائل پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور یہی راجح موقف ہے" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رمضان کے دنوں میں ہوٹل کھولنا چاہے کفار کیلیے کھولے جائیں جائز نہیں ہے، آپ میں سے کسی کو رمضان میں ہوٹل کھلا ہوا نظر آئے تو اس پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا ضروری اور واجب ہے تا کہ اسے ہوٹل کھولنے سے روکا جائے، کسی بھی کافر کیلیے مسلم خطے میں رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ کھانا پینا جائز  نہیں ہے، کافر پر بھی اس حرکت سے باز رہنا ضروری ہے" انتہی
" اللقاء الشهری" (8/ 4)  مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔

دائمی فتوی کمیٹی کے دوسرے ایڈیشن میں (9/36) ہے کہ:
" رمضان میں دن کے وقت کافروں کے لئے ہوٹل کھولنا اور ان کیلیے کھانے پینے کی خدمات فراہم کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں بہت بڑی شرعی ممانعت ہے کہ کافروں کے ساتھ اللہ کی حرام کردہ چیز میں تعاون پایا جاتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کفار شریعت کے اصول و فروع تمام پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے، اور کافروں پر روزہ رکھنا ضروری ہے لیکن ساتھ میں روزے کی شرط یعنی اسلام بھی قبول کریں، لہذا روزے کو اللہ نے ان پر واجب قرار دیا ہے اس کی ادائیگی ترک کرنے کیلیے غیر مسلموں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔

نیز ان کی ایسی خدمت کرنا جائز نہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان کی توہین اور تحقیر لازم آئے، مثلاً: ان کے لیے کھانا پیش کرے یا اسی طرح کی کوئی اور ملازمت اختیار کرے۔

اسلامی ملک میں آنے والے کافروں کے لیے اس بات کی پابندی ضروری ہے کہ اسلامی شعائر کی مخالفت نہ کریں، اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح کریں، لہذا مذکورہ کمپنی کے لیے رمضان میں دن کے وقت ہوٹل بند کرنا ضروری ہے"
شیخ بکر ابو زید       شیخ عبد العزیز آل شیخ     شیخ صالح فوزان             شیخ عبد اللہ بن غدیان     شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز

کھانوں کی اس قسم کے متعلق پہلے بھی سوال نمبر: (78494) اور (49694) میں جواب گزر چکا ہے۔

دوسری قسم:

کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن کے استعمال کا وقت دکاندار کو فروخت کرتے وقت چاہے دن ہو یا رات، معلوم  نہیں ہے کہ خریدار کس وقت کھائے گا، مثلاً: پیک شدہ کھانے کی چیزیں،  ٹافیاں، روٹی یا بریڈ، اسی طرح خشک اناج مثلاً: تیل ، چاول ، دالیں وغیرہ تو ہمارے علم کے مطابق عام طور پر بازار میں یہی چیزیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں تو مسلمان ان چیزوں کو رمضان میں دن کے وقت فروخت کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ:

اس حالت میں دکاندار کے ذہن میں  غالب گمان ہے کہ خریدار کافر ہونے یا بے عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے روزے دار نہیں ہے، لیکن دکاندار کو یہ نہیں معلوم کہ  خریدار نے اسے کس لیے خریدا ہے، ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر اسے استعمال کر لے یا کچھ عرصے بعد استعمال کرے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہی خراب ہو جائے اور استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔

جس طرح ان چیزوں کے استعمال  کیلیے ایک عام حکم ہے یا اکثریت کا طریقہ کار ہے ، اور کوئی بھی شخص یہ حکم نہیں لگا سکتا  کہ خریدار دن میں یا رات کے فلاں وقت میں استعمال کرے گا، تو پھر ان چیزوں کا حکم بھی مطلق اور عام ہو گا۔

اور اس عام اور مطلق حکم کی وجہ سے  ان چیزوں کو فروخت کرنے کا حکم بھی جواز ہی ہو گا جو کہ ان کا اصل کے اعتبار سے حکم ہے، ان چیزوں کی خرید و فروخت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون شمار نہیں ہو گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں گناہ یا زیادتی کے کاموں میں ہی استعمال ہوں  گی، اور چیزوں کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز کا ہوتا ہے، اور اس اصل حکم  کو تبدیل کرنے کیلیے  قابل یقین اور معتمد  دلیل ہونا ضروری ہے۔

مندرجہ بالا قید پہلے ذکر شدہ رملی رحمہ اللہ کی گفتگو میں بھی موجود ہے:
" کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا "

اب دوسری قسم کے کھانوں میں یہ بات پکی ہے کہ دکاندار کو نہ تو اس بات کا علم ہے کہ خریدار یہ کھانا رمضان میں دن کے وقت کھائے گا اور نہ ہی اسے اس بارے میں کوئی گمان آتا ہے، چنانچہ حرمت کا سبب ہی موجود نہیں ہے، لہذا اس کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز ہی ہو گا۔

یہی معاملہ ہر اس خرید و فروخت کے معاملے میں کیا جائے گا کہ جس میں خریدار کاچیز کے استعمال کرنے  کی صورتوں میں شک ہو۔

جیسے کہ رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور جن اکثر اہل علم کی جانب جواز مع الکراہت نقل کیا گیا ہے  تو وہ ایسی صورت کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، یقین نہ ہو" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)

لہذا اکثریت نے ان صورتوں میں جو جواز کا موقف اختیار کیا ہے وہ ان صورتوں کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، اور خریدار کے چیز لے جانے کا مقصد اور سبب معلوم نہ ہو۔

اور یہ بات بھی واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ لوگوں پر بہت زیادہ سختی نہیں ڈالتی اور نہ ہی انہیں ایسے کام کا حکم دیتی ہے جس کی ان میں استطاعت نہ ہو، کہ ہر خریدار سے ان کی خریداری کا مقصد پہلے پوچھے ، اس میں تو واضح طور پر بہت زیادہ مشقت اور سختی ہے، اپنے آپ کو آسانی سے تنگی میں ڈالنے والی بات ہے، حالانکہ اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ)
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیفی حکم نہیں دیتا، ہر جان کو اس کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا خمیازہ اسی پر ہے۔[ البقرة:286]

اسی طرح فرمایا:
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ [البقرة:185]

یہ بھی واضح رہے کہ  کھانے کی بیان شدہ دوسری قسم کو اس مسئلے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں انگوروں کی شراب بنانے والے کو انگور فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ شراب نوشی تو ہر حالت میں حرام ہے، انگوروں کے مالک کا غالب گمان یہی ہے کہ  خریدار خرید  کردہ  انگوروں سے  شراب ہی بنائے گا، جبکہ رمضان میں دن کے وقت غذائی اجناس فروخت کرنے والے کے ذہن میں غالب گمان یہ نہیں ہو تا کہ خریدار ان چیزوں سے ضروری طور پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہی کرے گا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب