الحمد للہ.
اگر معاملہ ایسے ہی ہے جس طرح آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے کہ آپ کمپنی کو رقم نہیں دیتے کہ کمپنی آپ کی طرف سے ادائیگی کرے بلکہ کمپنی پہلے اپنی طرف سے ادائیگی کر دیتی ہے اور پھر جو رقم کمپنی نے ادا کی ہے آپ سے وصول کر لیتی ہے اور ساتھ میں مذکورہ تناسب بھی وصول کرتی ہے، تو یہ سودی اور حرام قرض ہے، اسے اخراجات کا نام دے کر جواز نہیں دیا جا سکتا، اس بات سے بھی حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ اس تناسب کی مقدار 5٪ ہو یا کم و بیش ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرض کی ہر وہ قسم جس میں اضافی ادائیگی کی شرط لگائی گئی تو وہ حرام ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اسی طرح ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سب کا اجماع ہے کہ اگر قرضہ دینے والا مقروض شخص پر اضافی ادائیگی کی شرط لگائے یا تحفہ دینے کی شرط لگائے اور قرضہ دینے والا اسی شرط پر قرضہ دے تو یہ اضافی رقم لینا سود ہو گا۔
نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی بھی ایسے قرضے سے منع کیا جس سے نفع حاصل ہو" ختم شد
"المغنی" (6/ 436)
واللہ اعلم