الحمد للہ.
اس نے جو کام کیا ہے وہ حرام ہے، اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، جیسے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فتح مکہ کے سال مکہ میں فرماتے ہوئے سنا: (بیشک اللہ اور اس کا رسول شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (2236) اور مسلم : (1581) نے روایت کیا ہے۔
اب چاہے وہ اسے اہل کتاب کو کھلائے یا کتوں کو ڈالے یا کسی کو بھی نہ کھلائے؛ ہر صورت میں خنزیر کا گوشت خریدنا یا بیچنا حرام ہے، اس کی قیمت بھی حرام ہے۔
ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ سور کی خرید و فروخت حرام ہے" ختم شد
"الأوسط" (10/20)
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ سور کی خرید و فروخت حرام ہے" ختم شد
"شرح صحیح البخاری" (6/344)
جبکہ سور کھانا یہ الگ سے گناہ ہے، سور کھانے کی حرمت کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور مسلمانوں کے اجماع سے معلوم شدہ ہے۔
اب جس نے بھی یہ کام کیا ، چاہے وہ ایک بار کیا ہو یا زیادہ بار، تو اس پر لازمی ہے کہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے اور جو کچھ بھی اس سے سر زد ہوا ہے اس پر بخشش مانگے، آئندہ ایسی حرکت مت کرے، نہ ہی کسی کے سامنے اللہ کے دین کی پابندی میں سستی کا شکار ہو، کسی انسان کو خوش کرنے کے لئے دین سے دوری مت اپنائے، کوئی بھی ایسا کام کر کے کسی کے قریب ہونے کی چاہت نہ رکھے جس میں رحمن کی نافرمانی ہو۔
نیز یہ صحیح ہے کہ وہ اگر کسی مسلمان یا کافر کو کھانا کھلانا چاہے تو اسے حلال اور پاکیزہ چیز کھلائے، اسے حلال اور پاکیزہ چیز پلائے، اللہ کی نافرمانی میں اس کا تعاون مت کرے، چنانچہ کسی کو حرام چیز کھلا پلا کر خود اللہ کی نافرمانی بھی نہ کرے۔
واللہ اعلم