الحمد للہ.
اول:
شرک اکبر کے مرتکب، کافر، اور نفاق اکبر رکھنے والے کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے، چنانچہ جس شخص کے بارے میں کفر یا منافقت کا علم ہو جائے تو جاننے والے پر اس کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے، حتی کہ اس کی موت کے بعد اس کیلیے بخشش کی دعا مانگنا بھی جائز نہیں ہے، چاہے مرنے والا کوئی قریبی رشتہ دار ہو یا غیر ہو۔
ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ "المهذب" (1/ 250) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی کافر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی؛ کیونکہ اللہ تعالی
کا فرمان ہے:
(وَلا
تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ)
ترجمہ: ان میں سے کسی کی موت پر آپ ان کا جنازہ مت پڑھائیں اور نہ ہی [دعائے خیر
کیلیے]اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ [التوبۃ:84]
ویسے بھی نماز جنازہ مغفرت طلب کرنے کیلیے پڑھائی جاتی ہے ، اور کافر کو بخشش نہیں
ملنے والی اس لیے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا کوئی مقصد ہی نہیں رہ جاتا" انتہی
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ کافر شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنا حرام ہے"
انتہی
المجموع (5/ 258)
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (41/ 21) میں ہے کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم منافقین کی نماز جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے اور ان کیلیے
بخشش بھی طلب کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہو گیا:
(اِسْتَغْفِرْ
لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً
فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ)
ترجمہ: آپ ان کیلیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں[برابر ہے] اگر آپ ان کیلیے ستر بار
بھی بخشش طلب کریں تو اللہ تعالی انہیں ہر گز نہیں بخشے گا۔ [التوبہ: 80]
تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔
چنانچہ جب ان میں سے کوئی مر جاتا تو ان کی نماز جنازہ ایسے مسلمان پڑھ لیتے تھے جنہیں ان کے منافق ہونے کا علم نہیں تھا، اور جسے علم ہوتا تھا کہ میت منافق کا جنازہ ہے تو وہ اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کرتے تھے۔
چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی بھی جنازے میں شریک نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ جنازے میں شریک ہو جاتے ؛ کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کو منافقین کے ناموں کا علم تھا" انتہی
اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کی وفات کے بعد اللہ
تعالی سے ان کیلیے بخشش طلب کی تو اللہ تعالی نے انہیں اس سے روک دیا اور فرمایا: (مَا
كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ
كَانُوا أُوْلِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ
الْجَحِيمِ
*
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ إِلاَّ عَنْ
مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ
تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأَوَّاهٌ حَلِيمٌ)
ترجمہ: نبی اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش طلب
کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر یہ بات واضح ہو چکی
ہے کہ مشرکین دوزخی (ہوتے) ہیں [113] اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لئے بخشش کی
دعا کی تھی تو صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس بات کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ پھر
جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے۔ بلاشبہ
ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار (انسان) تھے۔ [التوبہ:113-114]
اسی طرح جادو کرنے کیلیے جنوں سے مدد لینے والا شخص بھی کافر ہے اس کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی جائے گی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا ساحر کو سزا کے طور پر قتل کر دیا جائے پھر اس کی نماز جنازہ پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دیا جائے ؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر
اسے قتل کیا جائے تو پھر اس کی نماز جنازہ نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے
قبرستان میں دفن کیا جائے گا، بلکہ اسے کفار کے ساتھ دفن کیا جائے گا، مسلمانوں کے
قبرستان میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے، اس کا جنازہ، کفن، اور غسل کچھ نہیں دیا جائے
" انتہی
مجموع فتاوى ابن باز (8/ 111) مزید کیلیے فتوی نمبر: (13941)
کی تفصیلات کا مطالعہ کریں
دوم:
سائل کا یہ کہنا کہ میرے علاوہ کسی شخص کو یہ علم نہیں ہے کہ فلاں شخص منافق یا جادوگر یا مشرک ہے، عین ممکن ہے کہ متعلقہ شخص پر اتنا بڑا الزام لگانے میں جلد بازی سے کام لیا گیا ہو، اس لیے پہلے اچھی طرح اس بات کی تصدیق اور دلی اطمینان حاصل کرنا ضروری ہے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ سائل نے متعلقہ شخص پر منافق ہونے کا الزام اس لیے لگایا ہو کہ اس شخص میں نفاق کی ایک علامت ہے، لہذا وہ منافق ہو گیا، مثال کے طور پر عام گفتگو کرتے ہوئے جھوٹ بولنا، [منافقوں کی صفت ہے] اور صرف یہ صفت مسلمان کو ایمان سے خارج کرنے اور مسلمان پر اعتقادی منافق کا حکم لگانے کیلیے نا کافی ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"منافقت کی دو قسمیں ہیں: ایک اعتقادی منافقت اور دوسری قسم عملی منافقت
اعتقادی منافقت دل میں ہوتی ہے، اور اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہی وجہ ہے
کہ کچھ صحابہ کرام سے جب غلطیاں ہوئیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ فلاں شخص
منافق ہو گیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایسا
کہنے سے منع کر دیا۔
اس لیے اعتقادی منافقت دل میں ہوتی ہے اور انسان کسی بھی مسلمان کو بغیر کسی واضح اور مبینہ دلیل کےمنافقت کا طعنہ نہیں دے سکتا۔
عملی منافقت یہ ہے کہ: انسان میں منافقوں والی علامات ہوں، تو ایسی صورت میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں "اس عمل کی وجہ سے یہ منافق ہے" چنانچہ اگر کسی شخص کو ہم دیکھیں کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے ، تو ہم کہیں گے: "یہ شخص اس مسئلے میں عملی منافقت کر رہا ہے" اسی طرح ہمیں کوئی شخص نمازوں میں سستی کا شکار نظر آئے تو ہم اس کے بارے میں کہیں گے: "اس میں منافقوں کی ایک صفت ہے" کیونکہ وہ بھی منافقوں کی طرح نماز کیلیے سستی کرکا شکار ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عملی نفاق کا دائرہ وسیع ہے، لہذا اگر کوئی شخص منافقین کی صفات میں سے کوئی صفت اپنائے تو وہ صرف اسی عمل میں منافقت کا شکار ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وفا نہ کرے، اور جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے)
یہ منافق کی علامتیں ہیں، البتہ ان میں سے کچھ علامات کسی مسلمان میں ہو سکتی ہیں
تو ہم کہیں گے یہ شخص فلاں کام میں منافق ہے" انتہی
لقاء الباب المفتوح (32/ 21) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
اس لیے دائرہِ اسلام سے خارج کر دینے والے نفاق کا الزام بالکل واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں دلیل سے ہی لگایا جائے گا۔
واللہ اعلم.