سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت 15 دن ہونے کی کیا دلیل ہے؟ اور طہر کی زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہوتی ہے؟

سوال

جمہور علمائے کرام نے جب یہ کہا کہ حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت 13 تا 15 دین ہے ان کی دلیل کیا تھی؟ اور اکثر علمائے کرام کے ہاں طہر کی زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہے؟ مجھے امید ہے کہ آپ دونوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ قرآن و سنت کے دلائل کے ذریعے وضاحت کریں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم کا حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت کی حد بندی میں اختلاف ہے، جمہور اہل علم کے ہاں حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت 15 (پندرہ) دن ہے، چنانچہ اس سے زیادہ ہونے پر اسے استحاضہ شمار کیا جائے گا۔

جمہور اہل علم نے اس کیلیے خواتین کے معمول کو دلیل بنایا ہے، چنانچہ معمول کے مطابق خواتین کو  15 دن سے زیادہ حیض نہیں آتا۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ہماری دلیل یہ ہے کہ حیض کی شریعت میں کوئی حد بندی نہیں ہے اور نہ ہی لغت میں حیض کی کوئی تعیین ہے، اسی طرح شریعت میں بھی حیض بغیر کسی تحدید کے آیا ہے، اس لیے عرف اور خواتین کی عام عادت کو معیار بنانا واجب ہو گا۔
عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن حیض آنے والی خواتین بھی دیکھی ہیں اور انہیں بھی دیکھا ہے جنہیں 15 دن حیض آتا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے یحیی بن آدم نے بتلایا وہ کہتے ہیں کہ میں نے شریک کو کہتے ہوا سنا : ہمارے ہاں ایک خاتون ہے اسے ہمیشہ 15 دن حیض آتا ہے" انتہی
" المغنی " (1/225)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حیض زیادہ سے زیادہ 15 دن آتا ہے۔
اس کی دلیل خواتین کی عادت اور حیض کا معمول ہے، کہ خواتین کو 15 دن سے زیادہ حیض نہیں آتا۔

اور ویسے بھی اگر 15 دن سے زیادہ حیض آئے تو یہ مہینے کا اکثر حصہ حیض بن جائے گا اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طہر کے ایام حیض کے ایام سے کم ہو جائیں۔

چنانچہ اگر حیض کے ایام 16 دن ہوں گے تو طہر کے 14 دن بنیں گے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ حیض طہر کے دنوں سے زیادہ ہو۔

علمائے کرام کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ اگر عورت کو خون آتا ہی رہے رکے نہ تو یہ استحاضہ کا خون ہو گا،  اور [اگر 15 دن سے زیادہ حیض ہو تو ]اس کا تقاضا ہے کہ مہینے کے اکثر دنوں کا حکم پورے مہینے کو دے دیا جائے[اور یہ ان کے اصول کے منافی ہے] چنانچہ 15 دن سے زائد کو استحاضہ شمار کیا جائے گا، لہذا کسی بھی عورت کا حیض 15 دن سے زیادہ ہو گا تو وہ استحاضہ ہو گا" انتہی
" الشرح الممتع " (1/471)

اور پہلے سوال نمبر: (5595)  اور (65570)کے جواب میں گزر چکا ہے کہ راجح موقف کے مطابق کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ حیض کی کوئی حد نہیں ہے۔

دوم:

اہل علم کا دو حیضوں کے درمیان کم سے کم طہر کی مقدار کے متعلق اختلاف ہے، اور پہلے سوال نمبر: (221997) میں گزر چکا ہے کہ کم سے کم طہر کی کوئی مقدار نہیں ہے۔

اور دو حیضوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ طہر کی مقدار کے متعلق  سب اہل علم کا اجماع ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔

چنانچہ شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اضواء البیان  میں لکھتے ہیں:
"اور ہم کئی بار پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ طہر کی کوئی حد نہیں ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے، نووی رحمہ اللہ "شرح المہذب " میں کہتے ہیں: "اجماع کی دلیل استقراء اور مشاہدہ ہے۔

اس پر دلچسپ بات تعلیق میں ذکر کرتے ہوئے قاضی ابو طیب  کہتے ہیں: "مجھے ایک عورت نے اپنی بہن کے بارے میں کہا کہ اسے پورے سال میں ایک بار وہ بھی ایک دن اور رات کیلیے حیض آتا ہے، اور وہ صحت ، تندرست و توانا بھی ہے، حاملہ بھی ہوتی بچے بھی جنم دیتی ہے، اس کا نفاس بھی 40 دن کا ہوتا ہے"انتہی

اسی طرح " نَيْلُ المَآرِب شرح دَلِيلُ الطَّالِب " (1/105) میں ہے کہ:
"دو حیضوں کے درمیان طہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد نہیں ہے؛ کیونکہ شریعت میں زیادہ سے زیادہ طہر کی حد بندی ذکر نہیں کی گئی؛ اور ویسے بھی کچھ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو ایک مہینے تک پاک رہتی ہیں، اور کچھ تین ماہ تک اور کچھ پورا پورا سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ پاک رہتی ہیں ، جبکہ کچھ تو ایسی بھی ہیں جنہیں حیض آتا ہی نہیں ہے" انتہی

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب