سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حديث ( من زارقبری بعدمماتی فکانما زارنی فی حیاتی ) کی صحت

سوال

مجھے پتہ چلا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت ایسے ہی ہے جیسا ان کی زندگی میں زيارت کی جاۓ ۔
تواس لیے جب ہم مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت کرتے ہیں تویہ حرام نہیں گردانتے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح بات کریں جس طرح کہ اگر وہ زندہ ہوتے توہم ان سے بات چیت کرتے ، اوران سے روزقیامت کے لیے شفاعت طلب کرتے ، لیکن اس کا قلق ہے کہ کہیں یہ شرک ہی نہ ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دارقطنی ( 2 / 278 ) نےحاطب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے میری موت کے بعدزیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زيارت کی ہو ۔ الحديث ۔

تواس حدیدث پر اکثر علماء نے باطل ہونے کا حکم لگایا ہے اور یہ کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ۔

اس حدیث کے ایک راوی ھارون بن ابی قزعۃ کے متعلق امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان ( 4 / 285 ) میں ترجمہ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ :

ھارون بن ابی قزعۃ المدنی عن رجل ، عن زیارۃ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کہ ھارون بن ابوقزعہ مدنی ایک شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت میں بیان کرتا ہے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ الباری کہتے ہیں کہ لایتابع علیہ ۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ازدی کا قول ہے : ھارون بن ابی قزعۃ آل حاطب میں سے ایک آدمی سے مرسل روایات بیان کرتا ہے ۔

تومیں ( حافظ ابن حجر) کہتا ہوں تواس سے یہ متعین ہوگیا کہ ازدی نے جو چاہا ہے وہی ہے ، اور یعقوب بن ابی شیبہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں لسان المیزان ( 6 / 217 ) ۔

اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر ( 2 / 266 ) میں بھی اسے ذکر کرنے کے بعد کہا کے ہے اس کی سند میں ایک مجھول شخص ہے ، اور حافظ ابن حجر کا اس آدمی سے مقصد بھی آل حاطب کا ایک شخص ہے ۔

اور شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی التوسل والوسیلۃ میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ : اس کا جھوٹ اورکذب ظاہر اور دین اسلام کے خلاف ہے ، کیونکہ جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اورمومن ہی مرا تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شمارہوا اورخاص کراگروہ ان کی طرف ہجرت کرنے اوران کے ساتھ جہاد کرنے والوں میں سے ہوا ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کرو ،اس ذات کی قسم جس کے ھاتھ میں میری جان ہے اگرتم احدپہاڑجتنا سونا بھی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کروتو پھر بھی ان کےایک مد اورنہ ہی آدھےمد تک پہنچ سکتے ہو۔صحیح بخاری ومسلم ۔

توصحابہ کرام کے بعد واجبی اموراورفرائض مثلا حج ، جہاد ، اورپانچ نمازوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود جیسے پرعمل کرنے والا بھی صحابہ کرام جیسا نہیں ہوسکتا توپھرایک ایسا عمل جوکہ مسلمانوں کے اتفاق سے واجب بھی نہیں بلکہ جس عمل کے لیے سفر بھی مشروع نہیں بلکہ ممنوع ہے پرعمل کرنے والاشخص صحابہ اکرام جیسا کیسے ہوسکتا ہے ؟

لیکن مسجد نبوی اور مسجد اقصی کی طرف نمازکے لیے سفرکرنا مستحب ہے اوراسی طرح حج کے لیے کعبہ جانا واجب ہے ، توجوبھی یہ مستحب اورواجب سفر کرتا ہے وہ بھی کسی صحابی کی طرح نہیں ہوسکتا جس نے اپنی زندگی میں یہ سفر کیا تھا تواب ایک ایسا سفر جو کہ ممنوع سفر ہے اس کے کرنے والا کیسے ہوگا ؟ ۔ دیکھیں التوسل والوسیلۃ ( 134 ) ۔

اورصفحہ ( 133 ) میں لکھتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زیارت کے بارہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہيں وہ سب کی سب ضعیف ہیں جن پردینی امورمیں سے کسی پربھی اعتمادنہیں کیا جاسکتا ۔

لھذا اسی لیے ان روایات کوصحاح اورسنن میں سے کسی نے بھی روایت نہیں کیا بلکہ انہیں روایت کرنے والے وہ ہیں جوضعیف احادیث کوروایت کرتے ہیں مثلا دارقطنی اور بزار وغیرہ ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کوباطل قراردے کراس کی علت بیان کرتے ہوۓ کہا ہے کہ پہلی علت یہ ہے کہ اس میں راوی کا نام بیان نہیں ، اورھارون ابی قزعۃ کوضعیف قرار دیا ، اورتیسری علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں اختلاف اوراضطراب پایا جاتا ہے ۔

پھرعلامہ البانی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ : اجمالی طورپر یہ حديث واھی الاسناد ہے ۔ دیکھیں الضعیفۃ حدیث نمبر ( 1021 ) ۔

اورایک جگہ پرعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :

اکثرلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اوران جیسا عقیدہ رکھنے والی سلفی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت سے منع کرتے ہیں ، تویہ کذب اورافتراء ہے اورشیخ الاسلام اورسلفیوں پر یہ کوئ پہلا الزام اورجھوٹ نہیں ۔

جس نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے کتب کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات کا بخوبی علم رکھتا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زیارت مشروع قرار دی ہے لیکن ایک شرط لگائ ہے کہ اگر اس زیارت میں مخالفات شرعیہ اوربدعات نہ پائ جائيں ، مثلا قبرکی زیارت کرنے کی نیت سے رخت سفرباندھنا ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی طورپرفرمان ہے :

( تین مساجد کے علاوہ کسی اورکی طرف سفر نہیں کیا جاسکتا ) تواس حدیث میں مستثنی صرف مساجد ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں بلکہ ہراس جگہ کا استثناء ہے جس سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا مقصد ہو چاہے وہ مسجد ہو یا قبر وغیرہ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جس میں ہے کہ :

میں بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے ملا توانہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کہاں سے آرہے ہو ؟ میں نے جواب دیا طور سے ، تووہ کہنے لگے کہ اگر جانے سے پہلے تم ملتے تو وہاں نہ جاتے ! میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے ، تین مسجدوں کے علاوہ کسی اورکی طرف سواریاں تیار نہ کی جائيں ۔ مسنداحمد وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

تویہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ صحابہ کرام اس حدیث سے عموم ہی سمجھے تھے ، اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے کسی قبر کی زيارت کے لیے سفر کیا ہو ، تواس مسئلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی کے سلف بھی وہی صحابہ ہیں ، توجوبھی شیخ الاسلام پرطعن کرتا ہے وہ اصل میں سلف صالحین رضي اللہ تعالی عنھم پرطعن کرتا ہے ۔

اورکسی نے کیا ہی خوب کہا ہے اللہ تعالی اس پررحم کرے :

سلف کی اتباع میں ہی ہر قسم کی خیرو بھلائ ہے اور ہر خلف کی اتباع میں شر ہی شر ہے ۔ انتھی ۔ دیکھیں سلسلۃ احادیث الضعیفۃ حدیث نمبر( 47 )

خلاصہ :

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی غرض و نیت سے سفر کرنااس حدیث کی بنا پرحرام اوربدعت ہے جس میں تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ پرعبادت کی غرض سے سفرکرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

لیکن جوشخص مدینہ میں ہے اس کے لیے قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت صحیح اورمشروع ہے اور اسی طرح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کی غرض سے سفرکرنا عبادت اوراللہ تعالی کے قرب اور اطاعت کا باعث ہے ۔

غلطی اور اشکال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان دونوں کے درمیان فرق کوسمجھا نہ جاۓ کہ مشروع کیا چيزاور ممنوع کیا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد