الحمد للہ.
عید کا خطبہ مستحب ہے، اس لیے خطبے میں حاضر ہونا اور اسے غور سے سننا واجب نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص عید کی نماز پڑھ کر جانا چاہے اور خطبہ کے لیے نہ بیٹھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کی دلیل سنن ابو داود: (1155) میں سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عید گاہ میں تھا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (ہم خطبہ دیں گے، چنانچہ اگر کوئی خطبہ سننے کے لیے بیٹھنا چاہے تو وہ بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے تو چلا جائے۔) اس حدیث کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہے، چنانچہ امام احمد، ابن معین، ابو داود، اور ابو زرعہ رازی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر ائمہ کرام نے اسے مرسل قرار دیا ہے۔
دیکھیں: "المسند المصنف المعلل" (11/ 275)
لیکن متعدد علمائے کرام اس معلول روایت کے مفہوم پر عمل پیرا ہیں۔
جیسے کہ علامہ صنعانی رحمہ اللہ سبل السلام: (3/ 184) میں کہتے ہیں:
"عیدین کے خطبہ کے عدم وجوب پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔" ختم شد
اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ "نيل الأوطار" (3/376) میں کہتے ہیں:
"نماز عید کی فرضیت کے قائلین اور دیگر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ عید کی نماز کے خطبہ میں شمولیت واجب نہیں ہے، میں کسی ایسے اہل علم کو نہیں جانتا جو عید کے خطبے میں شمولیت کو واجب کہتا ہو۔" ختم شد
چنانچہ عید کے خطبے میں شمولیت تمام علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر واجب نہیں ، اس حکم کے ثبوت کے لیے ذیل میں چاروں فقہی مذاہب کے علمائے کرام کے اقوال ذکر کرتے ہیں:
حنفی فقیہ علامہ طحاویؒ "بيان مشكل الآثار" (9/359) میں سابقہ روایت ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عید کی نماز اپنے ساتھ ادا کرنے والے نمازیوں کو چھوٹ دی کہ نماز کے بعد خطبے میں شامل ہوئے بغیر جا سکتے ہیں، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کا خطبہ ؛ جمعہ کے خطبہ جیسا نہیں ہوتا کہ اس میں بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح بیٹھنا، غور سے سننا، اور خطبہ مکمل ہونے سے لغو امور سے بچتے رہنا لازم نہیں ہے؛ چنانچہ جمعہ کے خطبہ میں اس کا اہتمام کرنا ضروری ہے، جبکہ عید کے خطبہ میں اس کی چھوٹ ہے۔" ختم شد
اسی طرح مالکی فقیہ حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (2/232) میں کہتے ہیں:
"[عیدے کے] دونوں خطبوں کو سننا مستحب ہے۔" ختم شد
اسی طرح "حاشية العدوي" (3/206) میں ہے کہ:
"خطبہ کا حکم: عید کا خطبہ مستحب ہے، یہ حکم "التحقیق" میں ذکر ہوا ہے۔" ختم شد
ایسے ہی "المدخل" (2/284) میں ابن الحاج کہتے ہیں:
"مسنون یہ ہے کہ نمازِ عید کے بعد امام کے خطبہ عید سے فراغت سے پہلے عید گاہ سے نہ جائے۔" ختم شد
شافعی فقیہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/29) میں کہتے ہیں:
"لوگوں کے لیے خطبہ سننا مستحب ہے، چنانچہ خطبہ دینا اور خطبہ سننا نماز عید کے صحیح ہونے کے لیے شرط نہیں ہے۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی شخص عید کا خطبہ، نماز کسوف کا خطبہ، یا استسقا کا خطبہ، یا حج کا خطبہ نہ سنے، یا دوران خطبہ باتیں کرے، یا اٹھ کر چلا جائے تو میں اسے اچھا نہیں سمجھتا لیکن اس پر کوئی اعادہ نہیں ہو گا۔" ختم شد
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/ 279 )میں کہتے ہیں:
"دونوں خطبے مسنون ہیں، ان میں حاضر ہونا اور غور سے سننا واجب نہیں ہے۔۔۔؛ پھر اس خطبے کو نماز سے مؤخر -واللہ اعلم- اس لیے کیا گیا ہے کہ جب یہ خطبہ ہے ہی غیر واجب تو اسے ایسے وقت میں رکھا گیا کہ اگر کوئی اسے چھوڑنا بھی چاہے تو چھوڑ دے، لیکن خطبہ جمعہ میں ایسا نہیں ہے۔" ختم شد
علامہ مرداوی حنبلی رحمہ اللہ "الإنصاف" (5/357) میں کہتے ہیں:
"دونوں خطبے سنت ہیں، بلا شبہ یہی فقہی مذہب ہے، اور یہی موقف اکثر حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔" ختم شد
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے:
"عید کے دونوں خطبے مسنون ہیں اور یہ عید کی نماز کے بعد ہوتے ہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى إسلامية"(1/ 425)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمعہ کے خطبہ میں حاضر ہونا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ترجمہ: اے ایمان والو! جب نماز کے لیے جمعہ کے دن اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی سے آؤ اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ [الجمعہ:9] جبکہ عید کے دونوں خطبوں میں شامل ہونا واجب نہیں ہے، اس لیے انسان نماز کے فوری بعد وہاں سے جا سکتا ہے تاہم افضل یہ ہے کہ نہ جائے۔" ختم شد
"الشرح الممتع على زاد المستقنع" (5/ 146)
واللہ اعلم