اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مسواک کے لیے مسنون امور

سوال

مسواک کسے کہتے ہیں؟ اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز کون سے ایسے اوقات ہیں جن میں مسواک کرنی چاہیے؟ مسواک کیسی ہونی چاہیے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے؟ مارکیٹ میں کچھ مسواکیں ایسی بھی ہیں جن میں مختلف فلیورز استعمال کیے جاتے ہیں تو کیا ان کا حکم بھی مسواک والا ہی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

درخت کی ٹہنی جس کے ذریعے مسواک کرتے ہوئے منہ اور دانتوں کو صاف کیا جاتا ہے، اس سے منہ اور دانت تو صاف ہوتے ہی ہیں، اللہ تعالی کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مسواک منہ کی صفائی کا سبب اور رضائے الہی کی موجب ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری: (2/274) میں معلق ذکر کیا ہے، جبکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے مسند احمد: (6/47) ، اور نسائی: (1/50) نے متصل روایت کیا ہے اور اس کی سند ارواء الغلیل: (1/105) میں صحیح ہے۔

مسواک کے بارے میں تاکید بھی احادیث مبارکہ میں وارد ہے، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر میری امت کے لیے گراں نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا) اس حدیث کو امام بخاری: (2/299) اور مسلم : (1/151) نے روایت کیا ہے، جب کہ صحیح بخاری کی ہی ایک اور روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔"

امام نووی رحمہ اللہ نے معتبر اہل علم کا مسواک کے مسنون اور مستحب ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، مسواک کی اہمیت ہمیں بعض سلف صالحین کے اس موقف سے بھی معلوم ہو گی کہ اسحاق بن راہویہ سمیت کچھ اہل علم ایسے بھی تھے جو مسواک کو واجب کہتے تھے۔

جن اوقات میں مسواک کرنا مستحب ہے:

دن ہو یا رات کسی بھی وقت مسواک کی جا سکتی ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پہلے ذکر کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عام ہے کہ: (مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا کی موجب ہے۔)

تاہم اہل علم نے کچھ اوقات ایسے ذکر کیے ہیں جہاں پر مسواک کرنا مزید مستحب ہو جاتا ہے، چنانچہ ان اوقات میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-وضو اور نماز کے وقت مسواک کرنا؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اگر میری امت کے لیے گراں نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔) ایک روایت میں ہے کہ ہر وضو کے ہمراہ مسواک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جیسے کہ پہلے یہ روایت گزر چکی ہے۔

2-گھر میں اپنے اہل خانہ سے ملنے اور اکٹھے ہونے سے پہلے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت اپنے گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے کیا کرتے تھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے تھے۔) مسلم: (1/220)

3-جس وقت آپ نیند سے بیدار ہوتے تو پہلے مسواک کرتے تھے، جیسے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت رات کو بیدار ہوتے تو مسواک کے ساتھ اپنا منہ صاف کرتے تھے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (1/98) اور مسلم : (1/220) نے روایت کیا ہے۔

4-جس وقت منہ سے بو آئے، چاہے کسی بو والی چیز کو کھانے کی وجہ سے یا پھر لمبی بھوک پیاس برداشت کرنے کی وجہ سے، یا کوئی بھی سبب ہو جس سے منہ میں بو پیدا ہو جائے تو اس وقت مسواک کرنا زیادہ مؤکد ہے؛ کیونکہ مسواک منہ کی صفائی کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب مسواک کی ضرورت ہو گی تو مسواک کی اہمیت مزید دو چند ہو جائے گی۔

5-مسجد میں داخل ہوتے وقت؛ کیونکہ اللہ تعالی نے مسجد میں جانے سے پہلے زیب و زینت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور منہ کی صفائی بنیادی زیب و زینت میں شامل ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ترجمہ: اے اولادِ آدم! تم ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اپناؤ۔[الاعراف: 31] اور ویسے بھی مسجد میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا اکٹھ ہوتا ہے۔

6- قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے اور اسی طرح وعظ و ذکر کی مجالس میں حاضر ہونے سے پہلے؛ کیونکہ وہاں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

روزے دار اور مسواک:

تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دن کے اول حصے میں روزے دار کے لیے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ زوال کے بعد مسواک کرنے کے حوالے سے اختلاف ہے، چنانچہ کچھ اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ روزے دار کے لیے بھی دیگر تمام لوگوں کی طرح کسی بھی وقت مسواک کرنا مسنون ہے؛ کیونکہ مسواک کرنے کے تمام دلائل عام ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی وقت کو مسواک کرنے سے مستثنی قرار نہیں دیا، چنانچہ عام اسی وقت تک عام ہی رہے گا تا آں کہ کوئی تخصیص وارد ہو ۔ تاہم اس حوالے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی جانے والی روایت کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم روزہ رکھو تو صبح کے وقت میں مسواک کرو، شام کے وقت میں مسواک مت کرو) اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر: (1/62) میں اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لہذا یہ روایت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (یقیناً روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے) اس حدیث کو امام بخاری: (2/29) اور مسلم : (2/806) نے روایت کیا ہے۔ سے مسواک نہ کرنے کی دلیل لینا بھی درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بو روزے دار کے منہ سے نہیں آتی بلکہ اصل میں معدے کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے! پھر یہ بھی ہے کہ روزے دار کے منہ سے یہ بو دن کے ابتدائی حصے میں بھی آسکتی ہے کہ جب روزے دار نے سحری نہ کی ہو تو اس صورت میں دن کے اول حصے میں مسواک کرنے کے سب لوگ قائل ہیں۔ لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ روزے دار کے لیے بھی مسواک کرنا مستحب ہے، پھر دن کے آغاز اور اختتام کا بھی اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

مسواک کس چیز کی ہونی چاہیے؟

تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ مسواک کے لیے بہترین چیز پیلو کی مسواک ہے؛ کیونکہ ایک تو اس کی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور دوسرا اس کا ریشہ بہت اچھا بنتا ہے جو دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے باقی ماندہ ذرات کو نکال دیتا ہے، نیز سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے پیلو کی مسواک کاٹ کر لایا کرتا تھا۔۔۔ الحدیث" مسند احمد: (3991) اس کی سند ( الإرواء 1/104) کے مطابق حسن ہے۔

لہذا اہل علم نے پیلو کی مسواک دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھجور کی ٹہنی سے مسواک کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، اور اس کے بعد زیتون کی مسواک کا درجہ آتا ہے، اس حوالے سے کچھ مرفوع روایات بھی بیان کی جاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح ثابت نہیں ہے۔

تو پیلو کی مسواک دستیاب نہ ہو تو کسی بھی درخت کی ایسی ٹہنی کو مسواک بنایا جا سکتا ہے جس سے دانت صاف ہوں اور اس کا کوئی نقصان نہ ہو، نیز ٹوتھ برش بھی مسواک کا کام دے سکتا ہے اسے استعمال کرنا بھی مفید ہے۔

کس چیز کی مسواک نہ بنائیں؟

اہل علم نے یہ بات واضح کی ہے کہ زہریلی اور پلید لکڑیوں کو مسواک کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، اسی طرح کسی ایسی لکڑی کی مسواک بنانا جائز نہیں ہے جو خون نکال دے، یا کسی نقصان اور بیماری کا باعث بنے۔

مسواک کیسی ہونی چاہیے؟

فقہائے کرام نے بتلایا ہے کہ مسواک موٹائی اور لمبائی میں درمیانے سا‏ئز کی ہو، یعنی چھنگلی انگلی کے برابر، نیز اس میں کوئی گانٹھ نہیں ہونی چاہیے، اتنی نرم نہ ہو کہ دبا کر دانتوں کو صاف کرنا ممکن نہ ہو، اور نہ ہی اتنی خشک ہو کہ منہ کو چھیل دے یا اس کے ریشے دانتوں میں ٹوٹ جائیں۔ ان باتوں کو مد نظر اس لیے رکھنا ہے کہ بہتر سے بہترین مسواک ہونی چاہیے وگرنہ نصوص میں ایسی کوئی قید اور تخصیص نہیں ہے، چنانچہ کسی بھی ایسی لکڑی کو بطور مسواک استعمال کرنا جائز ہے جس سے مسواک کے شرعی فوائد حاصل ہوں۔

مسواک کرنے کا طریقہ:
فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں کہ مسواک دائیں ہاتھ سے کرنی چاہیے یا بائیں ہاتھ سے؟ تو کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے مسواک کرنا افضل ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث عام ہے کہ آپ کہتی ہیں: "نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم جوتا پہنتے ہوئے، کنگھی کرتے ہوئے، اور وضو سمیت اپنے کسی بھی کام میں دائیں جانب سے کرنا پسند فرماتے تھے۔" متفق علیہ

نیز مسواک چونکہ اللہ تعالی کی اطاعت اور قربت کا باعث ہے اس لیے بائیں ہاتھ سے نہیں کی جا سکتی۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ بائیں ہاتھ سے مسواک کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ مسواک کے ذریعے گندگی کو صاف کرنا ہوتا ہے۔ یہ امام احمد کا مشہور موقف ہے اور اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنایا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم نے تفریق بیان کی ہے کہ: اگر مسواک کرنے والا سنت پر عمل کرنا چاہ رہا ہے تو دائیں ہاتھ سے مسواک کرے گا، اور اگر گندی صاف کرنے کے لیے مسواک کر رہا ہے تو پھر بائیں ہاتھ سے کرے گا۔

تو اس حوالے سے راجح موقف یہ لگتا ہے کہ اس مسئلے میں وسعت ہے؛ کیونکہ اس مسئلے کے لیے خصوصی طور پر کوئی نص وارد نہیں ہے۔ اور ہر موقف کی توجیہ بھی موجود ہے۔

فقہائے کرام کے ہاں مستحب ہے کہ مسواک دائیں جانب سے چوڑائی کے رخ کی جائے؛ کیونکہ لمبائی کی جانب سے مسواک کرنے پر ممکن ہے کہ مسوڑھوں کو نقصان ہو، اہل علم نے مسواک کے دیگر آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

-لوگوں کی مجلس اور عمومی محفلوں میں مسواک مت کرے؛ کیونکہ یہ مروت کے منافی عمل ہے۔

-مسواک کرنے کے بعد اسے پانی سے دھوئے، تا کہ مسواک کے ساتھ جو کچھ لگا ہوا ہے وہ بھی دھل جائے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت مسواک سے فارغ ہوتے تو مسواک دھونے کے لیے مجھے تھما دیتے تھے، تو پہلے میں مسواک کرتی پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تھما دیتی تھی۔" ابو داود: (1/45)

-مسواک کو محفوظ جگہ رکھا جائے۔

انگلی کو بطور مسواک استعمال کرنا:

مسواک دستیاب نہ ہونے کی صورت میں انگلی بطور مسواک استعمال کرنے کے بارے میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں، راجح موقف یہ ہے کہ اس عمل سے مسواک کی سنت ادا نہیں ہو گی؛ کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، نیز صرف انگلی سے منہ کی مسواک جیسی صفائی بھی نہیں ہوتی۔

دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک کے ساتھ ٹوٹھ برش وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ ان سے بھی منہ صاف ہو جاتا ہے اور منہ کی بو بھی ختم ہو جاتی ہے۔

اگر مسواک میں پودینے یا لیموں کا ذائقہ جدید طریقوں سے شامل کر دیا گیا ہے تو اسے بھی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ان کا نقصان نہ ہو، تاہم روزے دار انہیں استعمال کرنے سے گریز کرے؛ کیونکہ اس میں ایسنس پایا جاتا ہے، چنانچہ دوران روزہ عام قدرتی مسواک استعمال کرے۔

واللہ اعلم

تفصیلات کے لیے درج ذیل مصادر و مراجع کا مطالعہ کریں:
لسان العرب (مادة سوك) ، المجموع از نووی: (1/269) نهاية المحتاج از علامہ رملی: (1/162) حاشية ابن عابدين : (1/78) نيل الأوطار از شوکانی: (1/24) المغنی، از ابن قدامہ: (1/78) الفتوحات الربانية على أذكار النووي، از ابن علان: (3/256) الشرح الممتع ، از ابن عثیمین : (1/137)

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد