سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص نے کار مکمل چیک اپ کے بعد خریدی لیکن بعد میں اسے عیب نظر آیا جس کا بائع کو بھی علم نہیں تھا، تو کیا اب خریدار کو اختیار ہو گا؟

سوال

میرے بھائی نے ایک پرانی گاڑی خریدی اور دو سال سے زائد عرصہ ان کے استعمال میں رہی، اس دوران گاڑی کو کچھ نہ ہوا، اور آج سے تقریباً 20 ماہ قبل میرے بھائی نے اس گاڑی کو فروخت کر دیا، میرے بھائی نے یہ گاڑی اسی حالت میں اور مکمل چیک اپ اور ٹیکنیکل انسپیکشن کے بعد جو کہ ہمارے ہاں مراکش میں گاڑی فروخت کرنے سے پہلے لازم ہوتا ہے، فروخت کی تھی۔ اب جس شخص نے میرے بھائی سے گاڑی خریدی تھی اس نے فون کر کے کہا کہ آپ کی گاڑی میں نقص ہے، یعنی اس کی چھت تبدیل ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ پہلے کبھی اس گاڑی کا حادثہ ہوا ہو۔ اب میرا بھائی پریشان ہے، تو کیا اس پر اس کا گناہ ہو گا؟ اور کیا اس طرح کی فروختگی شرعی طور پر صحیح ہے؟ اور کیا میرا بھائی اس خریدار کو نقص کی وجہ سے معاوضہ دینے کا پابند ہو گا؟ واضح رہے کہ میرے بھائی نے اپنی گاڑی پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے فروخت کی تھی۔ براہ مہربانی آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر کوئی شخص کار خریدے اور پھر بعد میں اسے ایسے نقص اور عیب کا علم ہو جس کی وجہ سے گاڑی کی قیمت کم ہو جائے تو اب ایسے خریدار کو دو اختیار ہیں: کار واپس کر دے، یا کار اپنے پاس رکھے اور اس عیب کی وجہ سے پیدا ہونے والی قیمت میں کمی کا مطالبہ فروخت کنندہ سے کرے۔ ایسے معاوضے کو فقہائے کرام "ارش" کا نام دیتے ہیں۔

جیسے کہ كشاف القناع (3/ 218) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص نقص والی چیز لا علمی میں خرید لے، اسے بعد میں نقص کا علم ہو تو اب اسے اختیار ہے، چاہے اس نقص کا بائع کو علم تھا اور اس نے چھپائے رکھا، یا بائع کو بھی اس نقص کا علم نہیں تھا۔۔۔۔ خریدار کو مبیع واپس کرنے کا اختیار ہے تا کہ عیب کی وجہ سے پیدا ہونے والے نقصان کی تلافی کر لے، اور نقص دہ چیز کو اپنی ملکیت میں رکھنے سے جو نقصان مزید ہو سکتا ہے اس سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے ۔۔۔ اگر مشتری مبیع واپس کرے گا تو مکمل قیمت واپس لے گا؛ کیونکہ مشتری نے جب عقد فسخ کر دیا تو مکمل قیمت کا حق دار ٹھہرا۔۔۔ اسی طرح خریدار کو یہ بھی اختیار ہے کہ مبیع اپنے پاس ہی رکھے اور عیب کا مالی معاوضہ یعنی ارش بائع سے وصول کرے، چاہے خریدار کے لیے مبیع واپس کرنا ناممکن نہ ہو، لیکن بائع ارش کی رقم ادا کرنے پر راضی یا ناراض ہو، [ہر دو صورت میں خریدار کو اختیار حاصل ہے۔] کیونکہ خریدار اور دکاندار دونوں نے باہمی بیع اس بنیاد پر کی تھی کہ قیمت مبیع کے عوض میں دکاندار نے وصول کی ، قیمت کے ہر ہر جزو کے عوض مبیع کا جز ہے، جبکہ عیب پائے جانے کی وجہ سے مبیع کا متعلقہ جز معدوم ہو گیا جس کی تلافی کے لیے ارش کی ادائیگی لازم ہو گی۔" مختصراً ختم شد

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ خیارِ عیب حاصل ہو گا ، چاہے فروخت کنندہ کو مبیع میں عیب کا علم تھا یا نہیں تھا۔ خریدار نے اسے اچھی طرح چیک کیا تھا یا نہیں کیا تھا، چنانچہ جب بھی عیب کا علم ہو گا خریدار کو مکمل خیار حاصل ہو گا۔

لہذا اگر آپ کے بھائی کو عیب کا علم نہیں تھا، تو اس وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں ہو گا، لیکن خریدار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ گاڑی واپس کر دے، یا اپنے پاس رکھنی ہے تو ارش وصول کر لے۔

یہاں ارش سے مراد عیب دار گاڑی ، اور صحیح سلامت گاڑی کی قیمت میں آنے والا فرق ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"مؤلف کا کہنا ہے کہ: ارش وصول کرے، تو ارش صحیح سالم اور عیب دار چیز کی قیمت کے درمیان فرق کو کہتے ہیں۔ یہاں مؤلف نے قیمت کا لفظ بولا ہے، اس کی ثمن کا نہیں، قیمت اور ثمن میں فرق یہ ہے کہ قیمت وہ ہوتی ہے جو لوگوں کے ہاں اس کی مالیت ہو، جبکہ ثمن سے مراد وہ قیمت ہے جس پر اس کی فروختگی ہوئی ہے۔
چنانچہ اگر آپ کوئی چیز جو حقیقت میں 8 کی ہو لیکن آپ اسے 6 میں خرید لیں تو 8 اس کی قیمت ہے اور 6 اس کی ثمن ہے۔۔۔اسی لیے مؤلف نے کہا ہے کہ: صحیح سالم اور عیب دار چیز کی قیمت کے درمیان فرق کو ارش کہتے ہیں۔ چنانچہ اس عیب دار چیز کی قیمت صحیح سالم حالت میں کتنی تھی اور عیب کے ساتھ کتنی ہے ؟ یہ فرق مبیع کی ثمن میں سے منہا کر دیا جائے گا۔

نیز مبیع کی قیمت اس وقت کے اعتبار سے لگائی جائے گی جب یہ مبیع فروخت ہوئی تھی، اس وقت نہیں جب عیب کا پتہ چلا؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ دونوں اوقات میں مبیع کی قیمت مختلف ہو۔" ختم شد
الشرح الممتع (8/ 318)

چنانچہ اب آپ کے بھائی کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ جن سے انہوں نے کار خریدی تھی ان سے عیب کا ارش طلب کرے۔

دوم:

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں خریدار کو اختیار حاصل ہے کہ چاہے تو گاڑی رکھ لے اور ارش کا مطالبہ کرے، یہ جمہور کا موقف ہے۔

جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ ارش کے مطالبے کا خریدار کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، خریدار صرف یہ کر سکتا ہے کہ مبیع واپس کر دے، یا ارش کا مطالبہ کیے بغیر اسے اپنے پاس رکھے، ارش کا معاملہ بائع کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مؤلف کہتے ہیں: مبیع واپس کر کے قیمت وصول کر لے، یعنی آپ کو مبیع واپس کر کے بیع فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ آپ ادا شدہ قیمت وصول کر لیں، خریدار کو اختیار حاصل ہے۔ یہ جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے۔

جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اگر خریدار نے مبیع رکھنی ہے تو ارش کے بغیر رکھے، یا مبیع مکمل واپس کر دے۔ لیکن ارش کے لیے بائع کی رضا مندی ضروری ہے؛ کیونکہ یہ معاوضہ ہے۔

تو بائع یہ کہے گا کہ: میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کر دی تھی، یا تو تم اسے ایسے ہی رکھ لو، یا واپس کر دو، اگر ارش کا مطالبہ کرے تو یہ نیے سرے سے عقد ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جو موقف ہے بڑا وزنی ہے، ہاں اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ بائع کو عیب کا علم تھا، لیکن اس نے چھپا کر رکھا تو ایسی صورت میں خریدار کو ارش کے ساتھ مبیع رکھنے اور مکمل مبیع واپس کرنے کا اختیار ہو گا، اور یہ اختیار اس لیے ہے کہ بائع پر زیادہ سے زیادہ تنگی ہو۔
یہی معاملہ خیارِ تدلیس اور خیارِ غبن میں بھی ہو گا۔" ختم شد
الشرح الممتع (8/ 319)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب