سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جزوی جدائی اور کامل جدائی میں فرق، رجعی طلاق والی خاتون کا عدت کے دوران گھر سے باہر جانے کا حکم

سوال

کیا طلاق بائنہ کی عدت گزارنے والی عورت جو کہ ابھی جزوی جدائی  کے مرحلے میں ہے وہ اپنے گھر سے باہر رات گزار سکتی ہے؟ مثلاً: اگر عورت کی ملازمت  کے باعث عورت کو کسی دوسرے شہر میں کانفرنس میں شرکت کیلیے جانا پڑتا ہے، تو اس طرح اسے رات گھر سے باہر گزارنا پڑے گی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر خاوند بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو یہ " بينونة كبرى "کامل جدائی ہے، اور ان دونوں کا آپس میں نبھاؤ کسی دوسرے مرد سے نکاح کے بعد ہی ممکن ہو گا۔

لیکن اگر خاوند نے بیوی کو پہلی ، یا دوسری طلاق دی تھی اور اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس کی عدت کے ایام ختم ہو گئے اور خاوند نے عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو یہ" بينونة صغرى" جزوی جدائی ہے۔

اور اسی طرح اگر بیوی خاوند سے خلع لیتی ہے تو بیوی فوری طور پر خاوند کے عقد سے باہر  ہو جاتی ہے، چاہے اس کی عدت نہ بھی گزرے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (12/468) میں کہتے ہیں:
"عربی لفظ: " بينونة" کا مطلب جدائی اور علیحدگی ہے، تو طلاق بائن کی دو قسمیں ہیں:
" بينونة كبرى" یعنی جب تین طلاقیں ہو جائیں تو یہ کامل جدائی ہے۔

اور " بينونة صغرى" یعنی جزوی جدائی تو یہ وہ طلاق ہے جس میں خاوند معاوضہ لیکر طلاق دیتا ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو پہلے دو بار طلاق دے چکا ہے اور اب تیسری طلاق بھی دے رہا ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ طلاق بائن اور کامل جدائی ہے، یعنی اب دوبارہ اس سے نبھاؤ کسی اور سے شادی کے بعد ہی ممکن ہے۔

اور اگر کوئی شخص معاوضہ لیکر طلاق [یعنی خلع]دیتا ہے تو پھر یہ جزوی جدائی ہے،  تو اس جدائی کا مطلب یہ ہے کہ خاوند اپنی مرضی سے  اپنی بیوی کو آباد نہیں کر سکتا، اگر رجوع کر بھی لے تو رجوع نہیں ہو گا؛ ۔۔۔ الخ"

اسی طرح  "الشرح الممتع" (12/130) میں مزید کہا کہ:
"جزوی جدائی اس عورت کی ہوتی ہے جس کو خاوند خلع دے دے، اور اسے جزوی جدائی اس لیے کہا جاتا ہے کہ خلع دینے والا خاوند  عدت کے دوران یا عدت کے بعد نیا نکاح کر سکتا ہے، لیکن کامل جدائی تین طلاقوں کے بعد ہوتی ہے، تو اس بنا پر عدت والی خواتین کی تین اقسام ہیں:

پہلی قسم: رجعی عدت والی خاتون: یہ ایسی خاتون ہے جس سے خاوند نیا نکاح کئے بغیر رجوع کر سکتا ہے۔

دوسری قسم: جزوی جدائی والی خاتون: یہ وہ عورت ہے جس سے خاوند رجوع نہیں کر سکتا، البتہ نیا نکاح کر سکتا ہے، یعنی اس کے پاس رجوع کا اختیار نہیں ہے لیکن نکاح نیا کر سکتا ہے، چنانچہ ایسی خواتین جن سے نیا نکاح ممکن ہے تو ان کی جدائی ؛ جزوی جدائی  ہے۔

تیسری قسم: کامل جدائی والی خواتین ، یہ وہ خاتون ہے جسے تین طلاقیں  ہو گئی ہیں، تو یہ معروف شرائط کے مطابق کسی اور خاوند سے شادی کے بعد ہی حلال ہو گی ۔" ختم شد

دوم:

اگر عورت کی عدت رجعی طلاق  کے بعد  ختم ہو گئی ہے تو اب طلاق دہندہ خاوند کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے، یہ عورت  اپنے گھر سے جا سکتی ہے اور جہاں چاہے رات گزارے۔

اور اگر عدت ابھی تک جاری ہے، تو  رجعی طلاق والی خاتون عدت کے دوران اپنے گھر سے نکل سکتی ہے، اس پر بیوہ خاتون کی طرح گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں ہے، تاہم گھر سے طلاق دہندہ خاوند کی اجازت سے باہر جائے؛ کیونکہ یہ عورت ابھی تک اپنے خاوند  کے ما تحت ہے، اس عورت کی رہائش، کھانا پینا، اخراجات  وغیرہ سب کچھ خاوند کے ذمے ہے، اور اس عورت پر بھی وہ تمام تر ذمہ داریاں ہیں جو بیویوں پر ہوتی ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہی کہا کرتے تھے کہ:
"جب آدمی اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دے تو عورت اپنے خاوند کی اجازت سے ہی گھر سے باہر جائے"
اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے مصنف میں (4/142)روایت کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"راجح موقف یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے، اس کا حکم ایسی بیوی والا جس کو ابھی تک طلاق ہوئی ہی نہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں، یا رشتہ داروں کو ملنے جا سکتی ہے، یا مسجد میں درس وغیرہ سننے بھی جا سکتی ہے، اس کا حکم اپنے خاوند کا سوگ منانے والی بیوہ جیسا نہیں ہے ۔

جبکہ اللہ تعالی کا فرمان: لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور وہ نہ خود اپنے گھروں سے نکلیں۔ [الطلاق: 1] کا مطلب یہ ہے کہ دائمی طور پر گھر سے نکل کر کسی اور جگہ رہائش اختیار نہ کریں۔" ختم شد
"نور على الدرب"

اسی طرح آپ سوال نمبر: (136998 ) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

سوم:

اپنے ہی ملک کے کسی اور شہر میں کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے یہ ہے کہ اگر  عورت اپنے رہائشی علاقے سے دور کسی اور جگہ سفر کر کے جائے گی تو عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔

جیسے کہ بخاری: (3006) اور مسلم: (1341) میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی مت اختیار کرے، اور نہ ہی کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے) تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرا نام تو فلاں فلاں  غزوے میں لکھ دیا گیا ہے، اور میری اہلیہ حج کرنے کیلیے چل پڑی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کرو)
مزید کیلیے سوال نمبر: (82392 ) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب