الحمد للہ.
اول:
عرضہ، عرض سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ : سیدنا جبریل ہر سال ماہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا کہ: (جبریل ہر سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، انہوں نے اب 2 مرتبہ دور کیا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لیے تم تقوی الہی اپناؤ اور صبر کرو، کیونکہ میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں) مسلم: (2450)
صحیح بخاری: (3624) میں ہے کہ: (جبریل ہر سال ایک بار میرے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، اس سال جبریل نے میرے ساتھ دو بار دور کیا ہے، اور میں تو اس کو یہی سمجھتا ہوں کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے، اور میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے آپ مجھ سے ملیں گی) یہ سن کر میں رو پڑی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا آپ کو یہ پسند نہیں ہے کہ آپ اہل جنت یا مومنوں کی عورتوں کی سربراہ ہو؟)یہ سن کر میں ہنس دی۔
صحابہ کرام میں سے عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما بھی اس عرضہ میں حاضر ہو چکے ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر سال قرآن کریم کی جبریل علیہ السلام کے ساتھ عرضہ یعنی دہرائی کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی کی طرف سے جو وحی کی گئی ہے اس کے ساتھ قرآن کریم کا تقابل ہو، تا کہ منسوخ آیات ختم ہو جائیں، اور محکم آیات باقی رہیں، پھر ان باقی رہ جانے والی آیات کی تاکید بھی ہو جائے، یاد بھی رہیں اور اچھی طرح دل میں راسخ ہو جائیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زندگی کے آخری سال میں جبریل کے ساتھ دو بار دہرائی کی ، پھر جبریل نے بھی دو بار دہرائی کی، تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی وفات کا وقت قریب آنے کے بارے میں اندازہ ہوا۔
پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف الامام کو عرضہ اخیرہ کے مطابق جمع کیا تھا۔
اس کام کے لیے سال کے مہینوں میں سے رمضان کو اس لیے مختص کیا گیا کہ اسی ماہ میں وحی کی ابتدا ہوئی تھی، اسی لیے ماہ رمضان میں قرآن کریم کثرت سے پڑھنا مستحب ہے، اسی لیے ائمہ کرام قرآن کریم کی تلاوت کے لیے بھر پور کوشش کیا کرتے تھے۔" ختم شد
" تفسیر ابن کثیر"(1/ 51)
دوم:
اس میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے کہ رمضان میں ہر سال ہونے والا عرضہ پورے قرآن کا نہیں ہوتا تھا؛ کیونکہ ابھی قرآن کریم کا نزول مکمل ہی نہیں ہوا تھا، یہ بات تو بالکل واضح ہے۔
یہی معاملہ آخری عرضہ میں ہوا ہے؛ کیونکہ عرضہ اور دہرائی قرآن کریم کے صرف اس حصے کی ہوئی جتنا اس وقت تک نازل ہو چکا تھا، چنانچہ رمضان یا آخری دہرائی کے بعد کچھ حصہ مزید نازل ہو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے؛ کیونکہ وہ حصہ آخری عرضہ میں شامل نہیں تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں لفظ قرآن کو قرآن کریم کے کچھ حصے پر یا بڑے حصے پر بھی بولا گیا ہے؛ کیونکہ بعثت کے بعد پہلے رمضان میں قرآن کریم کا کچھ حصہ ہی نازل ہوا تھا، پھر پہلے سے دوسرے تک ، پھر دوسرے سے تیسرے تک یعنی آخری رمضان تک جتنا بھی قرآن نازل ہوتا اسے قرآن کہا گیا۔
پھر دس ہجری کے رمضان سے لے کر 11 ہجری کے ماہ ربیع الاول تک قرآن کریم کی کچھ آیات نازل ہوئیں انہی میں اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ آیت بھی شامل ہے؛ کیونکہ یہ آیت یوم عرفہ کو نازل ہوئی تھی، اور متفقہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی عرفات میں ہی تھے۔۔۔ تو جو آیات ان ایام میں نازل ہوئی ہیں ان کی تعداد پہلے نازل ہونے والی آیات کے مقابلے میں بہت کم تھی اس لیے انہیں دہرائی اور عرضہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ " ختم شد
"فتح الباری"(9/ 44)
عرضہ اخیرہ [قرآن کریم کی آخری دہرائی] کے متعلق مزید جاننے کے لیے ڈاکٹر ناصر قثامی کی کتاب: " العرضة الأخيرة .. دلالاتها وأثرها " کا مطالعہ کریں، اس کتاب کو قرآن و علوم قرآن چیئر نے نشر کیا ہے۔
واللہ اعلم