جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

جماع کے کفارے میں روزوں کی بجائے کھانا کھلانے کی اجازت کب ہے؟ اس کا کیا ضابطہ ہے؟

سوال

سوال: گزشتہ رمضان میں میں نے اپنی بیوی سے جماع کر لیا تھا، اور میں نے یہ فتوی پڑھا ہے کہ اس پر مجھے مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے پڑیں گے، میں نے روزے شروع کرنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں دورانِ ڈیوٹی اپنا کام اچھے انداز سے نہیں کر پاتا؛ کیونکہ توانائی کی کمی کے باعث مجھ سے کم نہیں ہو پاتا، اور ڈیوٹی کا دورانیہ بھی لمبا ہے، واضح رہے کہ میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ سردی کے دنوں میں روزے رکھ لوں، میں امید کرتا ہوں کہ اب آپ مجھے بتلائیں میرے ذمے کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ملازمت کے دوران کارکردگی میں آنے والی کمی کوئی ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے فرض روزے چھوڑ کر کھانے کھلانے کی اجازت مل سکے، چاہے یہ فرض روزے رمضان کے ہوں یا جماع کے کفارے میں رکھے جانے والے روزے یا کوئی اور ، سب کا حکم ایک ہی ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی  سے استفسار کیا گیا:
"ایک روٹی لگانے کی جگہ میں کام کرتا ہے اور اسے وہاں پر شدید پیاس کا سامنا رہتا ہے، کام کی نوعیت کی وجہ سے اسے خوب نقاہت بھی ہو جاتی ہے، تو کیا اسے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے؟"

اس پر کمیٹی کی جانب سے جواب یہ تھا کہ:
"اس کیلیے روزے چھوڑنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کیلیے روزے رکھنا ہی واجب ہے، اگر وہ رمضان میں دن کے وقت روٹی لگاتا ہے تو یہ روزہ چھوڑنے کیلیے ناکافی عذر ہے، وہ زیادہ کام نہ کرے بلکہ [روزہ رکھ کر] حسب استطاعت  کام کر لے" انتہی
فتاوی دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی( 10 / 238 )

ہم نے یہ سوال اپنے شیخ محترم عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب میں کہا:
" واجب روزے چھوڑنے کیلیے ملازمت  مؤثر عذر نہیں ہے، جیسے کہ رمضان کے روزے چھوڑنے کیلیے بھی ملازمت مؤثر عذر نہیں ہے"

لہذا آپ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں؛ کیونکہ ثواب کی امید رکھنے سے مشقت اور نقاہت کا احساس کم ہو جاتا ہے، اور یہ بھی ہے کہ ابتدائی ایام میں یہ احساس ہوتا ہے اس کے بعد انسان کو عادت ہو جاتی ہے، آپ اللہ تعالی سے مدد مانگیں ، اللہ تعالی آپ کیلیے آسانی فرمائے گا۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (65803) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب